لاہور(ویب ڈیسک)عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف نے 25 جولائی 2018ء کو حبس زدہ موسم میں ہونیوالے انتخابات میں115 سیٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ تحریکِ انصاف کی سب سے بڑی حریف کو 63 سیٹیں مل سکیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 43 سیٹوں کے ساتھ اپنی تیسری پوزیشن برقرار
مشہور کالم نگار فضل حسین اعوان اپنی تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔رکھی۔ یہ نتائج تحریک انصاف اور اس کے حامیوں کے لئے حبس زدہ سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا جبکہ اس کی حریف پارٹیوں کے لئے کوئلوں پر لوٹنے جیسی کیفیت لئے ہوئے تھے۔ جیل میں میاں نواز شریف کو سب سے زیادہ ماتم کناں ہونا ہی تھا۔ وہ عمران خان کو وزیراعظم ہائوس سے اڈیالہ جیل کی اذیت ناکی میں پھنسانے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ان کا ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بلاشبہ قوم میں مقبول ہوا اور الیکشن کے روز قوم نے ووٹ کو عزت دے دی۔ مگر ہمارے انتخابات میں دھاندلی کے واویلے کا کلچر مضبوط جڑیں پکڑ چکا ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کے جیداروں کو یقین کی حد تک امید تھی کہ قوم ووٹ کو عزت دو بیانیے کی پذیرائی کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی کلین سویپ کامیابی کو ممکن بنا دے گی مگر قوم نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیدیا۔ اس پر 2013ء کی طرح متعدد پارٹیوں نے دھاندلی کا شور اٹھایا۔ مسلم لیگ کے تاحیات قائد میاں نواز شریف نے جیل سے بیان جاری کیا کہ الیکشن چوری کر لئے گئے جبکہ صدر ن لیگ شہباز شریف
انتخابات کو ننگی دھاندلی قرار دے چکے تھے مگر مولانا فضل الرحمن خود دو سیٹوں سے ہار ے تو ان کی تو جیسے دنیا ہی تاریک ہوگئی۔ وہ آپے سے باہر دکھائی دئیے۔ انہوں نے فوری طور پر آل پارٹیزکانفرنس بلانے اور پی این اے طرز پر تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔ مسلم لیگ نے اس حد تک جانے سے گریزکیا، اس کی طرف سے اے پی سی وغیرہ کال کرنے کا اعلان تو نہیں کیا گیا تاہم مولانا فضل الرحمن کی اے پی سی کو نمائندہ اے پی سی سمجھ کر اس میں شرکت کا فیصلہ ضرور کیا۔پی این اے کی تحریک بھٹو حکومت کے خلاف تھی جس نے انتخابات میں دھاندلی کی۔اب مولانا کس کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ عمران خان نے چار حلقے نہ کھولنے پر دھرنا دیا۔انہوں نے اب کھولنے کی خود پیشکش کی۔ مولانا دوبارہ انتخابات کا انعقاد چاہتے اور شاید اس وقت تک انتخابات کرانے کا عزم ظاہر کرتے رہیں گے جب تک وہ خود منتخب نہیں ہو جاتے۔ان کا دوبارہ الیکشن کے بارے میں عزم راسخ ہے،اس تناظر میں پولنگ سٹیشنوں سے سامان واپس نہ منگوایا جائے۔ مولانا کی تالیف قلب کے لئے پارلیمنٹ کا رکن نہ ہونے کے باوجود چیئرمین کشمیر کمیٹی
بننے کا قانون بنایا جا سکتا ہے۔یہ انتخابات عمران خان بمقابلہ تمام حریف پارٹیز نظر آئے۔ عمران خان کے حامی گھروں سے بڑے جوش و خروش سے نکلے۔ وسیم اکرم جیسے لوگ تو خصوصی طور پر ووٹ کاسٹ کرنے پاکستان آئے۔ معذور اور معمر افراد لائنوں میں کھڑے تھے۔ قومی اسمبلی کے ساتھ تحریک انصاف نے پنجاب میں مسلم لیگ ن سے کچھ ہی کم سیٹیں حاصل کیں۔ ن لیگ کی 127 کے مقابلے میں 123۔ پنجاب میں کانٹے کا جوڑ ہے۔ عمران خان نے کرکٹ میں کبھی ہٹ ٹرک نہیں کی مگر سیاست میں ملکی تاریخ کی پہلی ’’پینٹاٹرک‘‘ کرنے میں کامیاب ٹھہرے۔ انہوں نے پانچ کی پانچ سیٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ میانوالی میں آبائی سیٹ کے ساتھ کراچی، لاہور، بنوں ، اسلام آباد سے بھی کامیاب ہوئے۔ قائداعظم کے بعد پاکستان کے ہر دلعزیز لیڈر ذوالفقار علی بھٹو بھی چار میں سے ایک سیٹ ہار گئے تھے۔ عمران خان کی کامیابی پر جمائما نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا ، میرے بیٹوں کے باپ 22 سال بعد وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے عمران خان کو یہ بھی باورکرایا کہ وہ یاد رکھیں، سیاست میں کیوں آئے۔ ریحام خان نے تو جلی کٹی سنانی ہی تھیں۔عمران خان کی روحانیت سے معمور
اہلیہ بشریٰ مانیکا نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، اللہ نے آپ کو وہ لیڈر دیا جو آپ کا خیال رکھے گا۔ ٹکٹوں کے معاملے پر جب پی ٹی آئی کی500 کے قریب احتجاجی خواتین زمان پارک پہنچیں تو بشریٰ بھی وہیں تھیں۔ انہوں نے ان سے کہا میں بھی آپ کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوتی ہوں، پہلے میری بات سن لیں۔ آدھ گھنٹہ بشریٰ کی گفتگو میں عمران خان کی سیاسی مشکلات و مصائب کے ذکرنے ان خواتین پر رقت طاری کر دی۔اس کے بعد بشریٰ نے کہا آؤ احتجاج کریں تو جواب تھا ہم خان کے ساتھ ہیں۔ کوئی کرے نہ کرے عمران خان بشریٰ کی روحانی صلاحیتوں پر ایمان کی حد تک یقین کرتے ہیں۔ پاک پتن کے نواح میں حاجی شیر کا مزار ہے، وہ الیکشن سے ایک روز قبل اس مزار پر دو گھنٹے اوراس کے بعد بابا فرید شکر گنج کے مزار پر 4 گھنٹے وظیفہ کرتی رہیں۔ ان کے قریبی حلقوں کے مطابق عمران کے حریفوں کے پاس 6 مؤکل جبکہ بشریٰ کے پاس 12 ہیںجو 6 کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقت ور بھی ہیں۔انتخابات سے قبل دعویٰ کیاگیاکہ یہ حریفوں کی گردن دبوچ لیں گے۔انتخابات پر ردعمل تو بیشمار آئے، فوجی ترجمان کامنفرد
تھا وہ کہتے ہیں اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا اورجسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ پوری آیت کا ترجمہ و مفہوم یوں ہے۔ آپؐ کہہ دیجئے اے اللہ! اے تمام جہاں کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور توجسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے: (آل عمران 26) عمران کو عزت اور بادشاہی مل گئی۔خان نے پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔نیت نیک ہو تو یقینا اللہ کی تائید و مدد حاصل ہوگی۔اب خان کو مشورہ دینے والوں کی لائن نظر آئے گی۔ بہرحال ان کو تمام معاملات دانشمندی سے طے کرنا ہونگے۔ انہوں نے اہداف مقرر کئے جو وعدے کئے، اقتدار کے پہلے سو دن میں کر گزرنے کا عہد کیا۔ وہ مشکل ضرور ہیں ناممکن نہیں۔ پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے تعجب خیزرہی ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میںسازشیں جنم لیتی،پلتی اوردیو قامت بنتی ہیں جو اقتدار کی بازی الٹ سکتی ہیں۔ عمران خان ایسی ہی سازشوں کا شکار ہوئے یامخالفین کا دائو چلا تو ان کی وزارت عظمیٰ 15 ماہ تک محدود ہو سکتی ہے۔ ساتھ یہ بھی روشن امکانات
ہیں کہ اپنے ایجنڈے کو اس کی روح کے مطابق آئیں بائیں شائیںکئے بغیر بروئے کار لانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو ان کا اقتدار 15 بیس سال تک بھی وسعت پا سکتا ہے۔ پاکستان کے مسائل ایسے ہیں جیسے کبھی ملائیشیا اور جنوبی افریقہ کو درپیش تھے۔ نیلسن منڈیلا اور مہاتیر محمد نے اپنے ممالک کو مسائل کی گرداب سے نکالا اور امر ہو گئے۔ عمران خان بھی اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنا کر مہاتیر محمد، منڈیلا اور طیب اردگان کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔ شیخ رشید جیسے غیر ذمہ دار دوستوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ عمران خان کی کامیابی کو امریکہ کے ایجنڈے کی بھی شکست قرار دے رہے ہیں جبکہ عمران نے اپنے خطاب میں امریکہ اور بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ عمران خان کے پاس کھرے لوگوں کی کمی نہیں تاہم انہوں نے پاکستانی سیاسی کلچر کے زیر اثر کئی ایسے الیکٹ ایبلز بھی پارٹی میں شامل کر لئے جو سراسرملاوٹی اور بناوٹی ہیں۔ ان کو وزیر و مشیر بنانے سے گریز ضروری ہے۔ نیب کومطلوب لیڈران کرام کو بھی کلیئر ہونے تک ذمہ داری دی گئی تو ساکھ مجروح ہوگی۔ آخر میں نوائے وقت کے ایڈیٹوریل کی ہیڈ لائن پر آمین کہنے میں کوئی حرج نہیں۔’’تبدیلی کے لئے پرعزم عمران خان کو اللہ ان کے مشن میں سرخرو کرے‘