لاہور (نیوزڈیسک) نامور تجزیہ کار کاشف سلیمان ا پنی رپورٹ میں لکھتے ہیں اس کا فیصلہ نتائج کے بعد ہو گا۔ کامیاب الیکشن کے لیے ضروری ہے کہ تمام جماعیتوں کو مساوی مواقع ملیں، شفاف اور غیر جانبدار موحول میں پولنگ ہو جس میں عوام اپنی مرضی سے ووٹ کاسٹ کریں اور اس کے نتیجے میں آنے والے نتائج کو تمام جماعیں قبول کریں لیکن ایسا ہوتا
ہوا نظر نہیں آ رہا، 2013 کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے انتخابی نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دھاندلی کا الزام لگایا اور اپنے مطالبے کی منظوری کیلیے سول نافرمانی کی کال دی، جلسے جلوس ،لاک ڈاؤن اور دھرنے دیے جن سے نبز آزما ہونے کیلئے حکومت نے اپنی توانائیاں عوام مسائل حل کرنے کی بجائے اس کو ناکام بنانے پر صرف کیں جبکہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی سمیت تقریباً تمام جموعتوں نے تحفظات کا اظہار کعر دیا ہے ایسے ،میں انتخابی نتائج کو کون تسلیم کرے گا، کیا سیاسی جماعیتں اقتدار کیلئے اگلے 5 سال پھر جلسے ، جلوس اور دھرنے دیتی رہیں گی اور عوام کے لیے ایک بار پھر نعرے اور دلاسے رہ جائیں گے۔ اس وقت سیاسی حالات کو دیکھیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور انہوں نے انتخابات سے قبل ہی ایک بیانیہ نیا لیا ہے کہ انتخابات غیر جانبدارنہ نہیں ہورہے ایسے میں جس بھی جماعت نے حکومت بنا لی تو کیا دیگر جماعتیں اس کو قبول کر لیں گی اور کیا پچھلے 5 سال کاری پلے شروع نہیں ہو جائے گا، دھاندلی کے نعرے، جلسے، دھرنے ایسے میں آنے والی حکومت اپنے اقتدار کے بچائے گی کہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرے گی ایسے حالات میں ایک بار پھر ملک و قوم کا نقصان ہو گا۔ ہمارے سیاستدان مثالیں تو مریکہ کی دیتے ہیں لیکن وہاں جب بش اورالگور کے درمیان 2000 کے الیکشن میں نتائج کے بعد فلوریڈا کے ووٹوں پر اختلاف ہوا تو عدالت نے بش کے حق میں فیصلہ دیا جس کے بعد امریکہ کے صدر بن گئے، ہیلری کے مقابلے میں ٹرمپ جیسے جتتے وہ بھی سب کو پتہ ہے کہ لیکن الگور اور ہیلری نے کوئی جلوس، جلسے ااور دھرنے نہیں دیے انہیں سیاسی اقدار کی وجہ سے امریکہ میں جمہوریت مستحکم ہے۔ ہم امریکہ اور یورپ کی جمہوریت کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ جمہوریت ان ممالک میں زیادہ مستحکم ہے جہاں پر شرح خواندگی زیادہ ہے سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے اپنا پروگرام رکھتی ہیں کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد کیا کریں کی اس کو روڈمیپ سے عوام کا آگاہ کرتی ہیں۔ مباحثے ہوتے ہیں اور پھر عوام اپنے رہنما کو منتخب کرتی ہے اور اقتدار میں آنے والی جماعت اپنے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، شرح خواندگی انتہائی کم ہے کس کی وجہ سے عوام کو اپنے حقوق کا بھی نہیں پتہ جس ملک میں ووٹ سر عام بیچے اور خریدے جاتے ہوں، قیمے والے نان اور بریانی کے ڈبے پر قوم اقتدار کی بھاگ دوڑ نا اہل اور کرپٹ لوگوں کے ہاتھ میں دے اور پھر کہیں کہ ملک ترقی نہیں کر رہا۔