لاہور(ویب ڈیسک) ایک اہم اورپُردرد خط ایک شامی ادیب محمد البوادی کا ہے جس کا ترجمہ برادرم محمد شاہد خان نے کیا ہے۔ اس کو پڑھیے اور سر دُھنئے اور لعنت بھیجئے ان لوگوں پر جو کافروں سے مل کر اس خوبصورت، بہادرقوم، اور خوبصورت ملک کو تباہ کررہے ہیں اور عیاشیوں میں مبتلا ہیں۔
نامور سیاستدان ڈاکٹرعبدالقدیر خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔انھوں نے مارکوس، شہنشاہ ایران، کرنل قذافی اور صدّام حسین کے انجام سے نگاہ بند کرلی ہے۔’’میں چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک کافر ملکوں کی طرح ہوجائے۔ اس پر ایک شیخ الاسلام نے فرمایا: ہماری پسماندگی کا سبب کتاب و سنت سے دوری ہے تو محمد البوادی نے یوں اس کا جواب دیا: تم لوگ ہمیشہ طوطے کی طرح ایک ہی رٹ لگاتے رہتے ہو کہ ہماری پسماندگی کا سبب اسلام سے دوری ہے! میں پوچھتا ہوں کیا جاپان، امریکہ، چین، روس اور یورپ کی ترقی کا راز شریعت کی پیروی ہے؟ شیخ محترم: ہماری پسماندگی کی اصل وجہ وہ ’’پسماندہ مذہب‘‘ ہے جو ہمارےبعض تنگ و تاریک ذہنوں کی پیداوار ہے اور یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کو سمجھنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہو۔ ہم مسلمانوں کو دیکھئے ہم میں سے جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے وہ کافروں کے ملک جاتا ہے۔ جو باعزت زندگی گزارنا چاہتا ہے وہ کافروں کے ملک جاتا ہے۔ جو اپنی دولت کی حفاظت چاہتا ہے وہ اپنا پیسہ کافروں کے بینک میں ڈپازٹ کرتا ہے۔ جو کسی طرح کی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے وہ کافروں کے مصادر کا سہارا لیتا ہے۔ لاکھوں بھاگنے والوں میں سے کوئی بھی اسلام اور ہدایت کی سرزمینوں میں پناہ
نہیں لیتا نہ وہ کسی عرب ملک جاتا ہے نہ اسلامی نیوکلیر ملک پاکستان جاتا ہے نہ دولت و ثروت سے مالا مال ممالک خلیج کا رخ کرتا ہے اور نہ ہی کنانہ کی سرزمین مصر میں پناہ لیتا ہے بلکہ وہ کفار کے ملکوں میں پناہ گزیں ہوتا ہے۔جب رحمت اسلام سے بھاگنے والے مسلمان ساحل کفار کے سامنے ڈوب رہے ہوتے ہیں تو وہی کفار ان کی جان بچاتے ہیں انھیں پناہ دیتے ہیں انھیں کھانا اور دوا دیتے ہیں۔ یہ گاڑی، جس پر تم سواری کرتے ہو ،یہ کمپیوٹر، جس کو تم استعمال کرتے ہو اور یہ موبائل فون، جس سے تم ایک پل بھی جدا نہیں ہوپاتے ہو یہ سب کافر ملکوں کا تیار شدہ ہے۔ یہ دوائیں جو تم پیتے ہو یہ کافر ملکوں سے تیار ہوکر آتی ہیں۔ یہ ہوائی جہاز یہ توپ یہ بندوق یہ ریوالور یہ سب کافر ملکوں کی ہی پیداوار ہیں۔کافروں کے ملک میں صرف اختلاف رائے یا طریقہ کار کے اختلاف پر قتل نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی انسان ایک دوسرے طریقے پر عمل پیرا ہوتا ہے تو کافر ملکوں میں اس کے قتل کا حکم صادر نہیں کیا جاتا اور نہ تبدیلی مذہب کی وجہ سے اس کا قتل کیا جاتا ہے لیکن علماء اسلام آپ لوگ؟ آپ لوگوں کا تو پوری انسانیت یہاں تک کہ مسلمانوں کے تئیں
بھی یہی پسندیدہ مشغلہ ہے۔ کافروں کے ملک میں کسی شہری کو اس لئےنذر زنداں نہیں کیا جاتا کہ وہ مخالف یا کسی دوسری رائے کا حامل ہے جبکہ اکثر مسلمان ملکوں میںیہی سب ہوتا ہے اور اس لئے میں تم لوگوں سے کہوں گا تم اپنی پسماندگی، اپنے پاس رکھو۔میں ایک شامی ہوں اور میں چاہتا ہوں تاکہ میرا ملک بھی کافروں کے ملکوں کی طرح ہوجائے اور میں یہ بات یوں ہی نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ میں اللہ، اس کے فرشتوں، آسمانی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہوں، قرآن میں غور و فکر کرتا ہوں اور اللہ کی طرف حکمت سے بلاتا ہوں، برخلاف ان علماء کے جنھوں نے اسلام کو ڈرائونا بنا دیا ہے اور وہ امّت اسلامیہ اور انسانیت کی بیخ کنی کر رہے ہیں۔‘‘ (نوٹ) الیکشن کے چند دن رہ گئے ہیں۔ جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے وہ سُن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایک مسلمان پہلے اور پھر ایک انسان کی حیثیت سے اس قسم کی زبان زیب نہیں دیتی۔ بس عوام آپ سے درخواست ہے۔۔۔۔لوگو دُعا کرو کہ آجائیں اچھے لوگ۔۔۔۔۔حالات کہہ رہے ہیں بُرے لوگ آئیں گے۔