Thursday November 14, 2024

الیکشن 2018 میں اگر تحریک انصاف کی حکومت بنتی ہے تو۔۔۔۔کامیایابی حاصل کرنے کے بعد پی ٹی آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کون کرے گا؟ آنے و الے دنوں میں سیاست پر کیا چیز حاوی رہے گی؟ طلعت حسین نے دھماکے دار انکشاف کر دیا

کراچی(ویب ڈیسک) نجی نیوز چینل کے پرگرام ”نیا پاکستان “کے میزبان طلعت حسین نے لسبیلہ بلوچستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے دنوں میں سنجرانی ماڈل مرکزی سیاست میں حاوی ہوگا،آنے والے انتخاب سے جو حکومتیں بنیں گی ان کے لیے بدترین مشکلات ہوں گی ،آئندہ سیٹ اپ پی ٹی آئی کا بنتا ہے

تو بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) اس کو سپورٹ کرے گی ۔اگر پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں کوئی جداگانہ جگہ سفیر بنتی ہے تو وہ حب کا علاقہ ہے یہاں پر پشتون ،سرائیکی ،مہاجر ،عیسائی اور ہندووں سمیت بیشتر قومیں موجود ہیں کیونکہ یہ جگہ سندھ کے قریب ہے اور قومی دھارے سے ملتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ عمومی طور پر جس صوبے کی کم سیٹیں ہوتی ہیں مثلاً بلوچستان میں قومی اسمبلی کی16اور صوبائی کی 51سیٹیں ہیں، قومی دھارے میں انتخابی اور نمبر گیم میں اس کا پلڑا اتنا بھاری نہیں ہوتا اور لوگ بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن اب یہ صورتحال تبدیل ہوگئی ہے کیونکہ مرکز میں کانٹے کا مقابلہ ہے ایک ایک سیٹ اہمیت رکھتی ہے ، بلوچستان سے نوجوان پاکستان کے مختلف اداروں کے اندر کام کرتے رہے ہیں اور اس کی وجہ شہرت یہاں سے خواتین منسٹر سامنے آئی ہیں اور اگر منفی زاویہ سے دیکھیں تو بلوچستان دہشت گردی کا مرکز رہا ہے ، سی پیک کے گرد جو سیاست گھوم رہی ہے وہ مرکز رہا ہے لیکن کبھی بھی پاکستان کی مرکزی سیاسی نمبر گیمز میں بلوچستان اہم نہیں رہا۔اس وقت جو پاکستان کے مرکز کے اندر الیکشن کے حوالے سے تنازعہ نظر آرہا ہے اس کا باقاعدہ آغاز

بلوچستان سے ہوا جس کے ماڈل صادق سنجرانی ہیں ،آنے والے دنوں میں سنجرانی ماڈل مرکزی سیاست میں حاوی ہوگا ۔ اسی وجہ سے آج ہم این اے 271میں موجود ہیں ، نجی ٹی وی کےنمائندہ سلمان نے کہا کہ حلقہ 257سے263میں بلوچ اور پشتون دونوں علاقے شامل ہیں ، یہاں پر کسی ایک جماعت یا گروہ کی اکثریت نہیں ہے ، مختلف جماعتوں کی جانب سے یہاں پر تنوع پایا جاتا ہے ، مجموعی طور پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، ایم ایم اے ، بلوچستان عوامی پارٹی ، پی ٹی آئی ، ن لیگ اور پی پی پی ان علاقوں میں اپنا ہولڈ رکھتی ہیں اور ان کے امیدواروں کے کامیاب ہونے امکانا ت روشن ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان حلقوں میں تمام سیاسی جماعتوں کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن جو برادریاں، قوم اور قبیلے موجود ہیں ان کی حیثیت بھی اپنی جگہ موجود ہے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں جتنی بھی آبادیاں ہیں وہاں برادریوں کا اثر ورسوخ ہے ۔ پارٹیوں نے جس طرح ٹکٹوں کی فراہمی کی ہے ایسا لگتا ہے کہ ایم ایم اے دو سے تین سیٹیں لے گی، اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی کے دو امید وار مضبوط ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے ایک امیدوار کے بھی جیتنے

کے امکانا ت ہیں ۔آج ٹی وی کے بیوروچیف مجیب احمد نے این اے 264سے 272تک کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ حلقے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ، کوئٹہ میں بی اے پی ، پشتون خواہ میپ ، جبکہ بی این پی اچھی پوزیشن میں ہیں، نوشکی اور چاغی میں مسلم لیگ ن نے اپنے امیدوارجنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ کو اتارا ہوا ہے ، خضدار میں بھی بی این پی کو سخت مقابلے کا سامنا ہے ، انہوں نے کہا کہ ان حلقوں میں مکس پوزیشن ہے کوئی واضح پارٹی سامنے نہیں آرہی ، یہ سیٹیں تقسیم ہوں گی ۔ گوادر کے حلقے سے سرداراختر مینگل کا مقابلہ جام کمال خان جو بی اے پی کے صدر ہیں کے ساتھ ہے یہاں پر بھی مقابلہ سخت ہوگا ۔ آنے والے سیٹ اپ میں بلو چستا ن اہم کردار ادا کرے گا ، بلوچستان سے باپ نمایا کامیابی حاصل کرے گی اور خیال یہی کیا جارہا ہے کہ اگر آئندہ سیٹ اپ پی ٹی آئی کا بنتا ہے تو باپ اس کو سپورٹ کرے گی جبکہ دیگر جماعتیں جو قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ہیں ان کی سپورٹ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ پی ٹی آئی کا ساتھ دیں گے یا نہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر سنجرانی سیٹ اپ آیا تو باپ آزاد امیدوار وں کے ساتھ مل کر اپنا امیدوار بھی لاسکتی ہے ۔ طلعت حسین نے کہا کہ صادق سنجرانی کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے بلوچستان کے فارمولے کو مرکز کے اندر جاکے پیوست کردیا ہے ۔ نیا پاکستان کے الیکشن 2018کی کوریج پر آخری پروگرام میں طلعت حسین نے کہا ہے کہ ان انتخابات میں بڑی امیدیں لاد دی گئی ہیں ، خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے بعد پاکستان کے اندر ایک نئی جماعت طاقت میں آئے گی ، عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ وزیراعظم بن جائیں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ معروضی حالات سے بھی نظر نہیں اٹھا سکتے ، معروضی حالات کے اندر سیاسی خلفشار بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے کسی بھی حکومت کو چاہے اس کے دو تہائی اکثریت ہو یا اس کے پاس کمزور اکثریت ہو اس کے باوجود اسے حکومت چلانے کے لیے سیاسی طور پر استحکام درکار ہے ۔ آنے والے انتخابات میں صرف طاقت حاصل کرنا بڑا مسئلہ نہیں ہے ، پاکستان کے اندر شوکت عزیز کو بھی وزیراعظم بننے کا موقع مل گیا ، چوہدری شجاعت حسین بھی بن گئے ، ظفر اللہ جمالی بھی تو وزیر اعظم بننا کوئی معاملہ نہیں

ملک کو چلا نا مقصود ہے جس سے مراد یہی ہے کہ ہمیں سیاسی استحکام چاہیے ہوگا۔ حنیف عباسی کیس کا فیصلے آنے کے بعد پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے تنازعہ شروع ہوگیا ہے ، نواز شریف کے بدترین نقاد بھی کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ان تمام واقعات کا مقصد نواز شریف کو فائدہ دینا ہے ۔اس واقعے کو اگر جسٹس شوکت صدیقی کے بیان کے تناظر میں دیکھیں تو انتہائی خوفناک صورتحال نظر آتی ہے ، انہوں نے کہا کیا یہ بہتر نا ہوتا کہ پورے پاکستان میں الیکشن کوریج پر پروگرام کرنے بجائے ہماری ٹیم اسلام آباد نیب کورٹ کے سامنے ہی اپنا کیمپ ڈال لیتے اور اسلام آباد کے مقدموں کو دیکھ کر پتا چل جاتا کہ پاکستان میں کس طرح کے الیکشن ہورہے ہیں ۔ پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے اصل یا نقل ، کنٹرول یا فری جب انتخابات ہوجاتے ہیں اس وقت تنازعہ شروع ہوتاہے کہ متنازعہ انتخابات ہیں ۔ 2018کا واحد انتخابات ہے جس کا تنازعہ ڈیڑھ دو سال پہلے سے شروع ہوا ہے کہ اس طرح ہونا ہے اور بد قسمتی سے ویسا ہی ہورہا ہے ۔یہ واحد انتخابات ہے کہ ایک پرچی بھی نہیں ڈلی اور وزیراعظم کے امیدوار کہتے پھر رہے ہیں کہ ہماری کابینہ میں کون لوگ ہوں گے اور ملک کس طرح سے چلائیں گے ۔

FOLLOW US