لاہور (ویب ڈیسک )شہرِہزار رنگ لندن میں ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے کہ لوگ انسانی خون بہتا دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ ہر گلی محلے میں دنگا فساد ہوتا تھا، تھیٹروں کے اس شہر میں ہر ڈرامے میں تشدد اور لڑائی مارکٹائی دکھا ئی جاتی تھی۔ جس کھیل میں زیادہ خون
نامور تجزیہ کار سہیل وڑائچ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔ بہتا ہوا دکھایا جاتا وہ ڈرامہ زیادہ مقبول ہوتا، ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے ، نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک بار قتل کا لائیو منظر ڈرامے میں دکھانے کی کوشش کی گئی۔ اضطراب انتقام اور خونی کھیل کے اس دور کا نقطہ عروج مذہبی عیسائی انقلاب(Puritan Revolution) کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔ تھیٹر کے شوقین لندن کے باشندوں کا علاج یہ کیاگیا کہ شہر کے سارے تھیٹر بند کردیئے گئے۔ پیٹراکرائڈ کی کتاب ’’لندن‘‘ میں لکھا ہے کہ فحاشی ،عریانی اور تشدد کو بنیاد بنا کر ڈرامے پر ہی پابندی لگا دی گئی۔ اس حکومت نے لندن کے شہریوں کو سزائیں دینا شروع کیں، کئی بدمعاشوں اور غنڈوں کو سرعام قتل کردیاگیا،ہرطرف خونی کھیل جاری ہوا ،لندن والے اسٹیج پر خون بہتا ہوا دیکھ کر جوش اور جذبے میں آتے تھے اور خوش ہوتے تھے، ان کا اپنا خون بہنا شروع ہوا تو انہیں خون سے گھن آنے لگی، تاریخ کا پہیہ گھوما اور جب ڈرامے اور تھیٹر دوبارہ شروع ہوئے تو خونی کھیل بند ہوگئے، کسی کو بھی انسانی خون بہتے ہوئے دیکھنا اچھا نہ لگتا تھا ۔ حالات بدلےتو سوچ بھی بدل گئی۔تضادستان بھی ان دنوں قدیم لندن جیسی سوچوں سے گندھا ہواہے،بڑے بڑے امن پسندوں پر انتقام اور احتساب کا خون سوار ہے،
جس نے کبھی اپنے شرارتی بچوں کو ٹوکا تک نہیں وہ بھی کرپٹ مافیا کی خود گردن دبانا چاہتا ہے، جلسوں میں جوتے مارے جا رہے ہیں، گولیاں چل رہی ہیں، بم پھوڑے جا رہے ہیں، دہشت گردی کرنے اور کرانے والے سرعام سوشل میڈیا پر اپنے کارنامے شیئر کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے زندگی میں مکھی تک نہیں ماری ان کا بھی جوش انتقام ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔ ٹھوکریں کھا کر بیرون ملک جانے والے نوازشریف کے لندن فلیٹس کو ٹھوکریں مار رہے ہیں، بڑےبڑے پارسا وہاں پہنچ کر تقریریں کر رہے ہیں، کئی دانشور نواز شریف اور مریم نواز کو جیل کی کال کوٹھڑی تک پہنچا کر بھی مطمئن نہیں ہیں، ان کی خواہش ہے کہ ان سے چکی پسوا ئی جائے، زنجیریں پہنا کر انہیں سرعام پھرایا جائے۔ یہ وہی قدیم لندن کا خون بہتے دیکھنے والا جنون ہے، لیکن یاد رکھنا چاہئے خونی کھیل مہنگا پڑتا ہے، دوسروں کو خون میں دھکیلنے والے جوابی طور پر خود بھی اسی خونی کھیل، انتقام اور احتساب کا نشانہ بنتے ہیں۔تضادستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل کا حل یہ ہے کہ سینٹ، قومی اسمبلی اورچاروں صوبائی اسمبلیوں کے 1174 اراکین کو توپ کے منہ سے باندھ کر اڑا دیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے ملک میں کرپشن اور اقربا پروری ختم ہو جائے گی
کچھ جذباتی ایسے بھی ہیں جو ایرانی انقلاب کی مثال دے کر مخالفوں کوصفحہ ہستی سے مٹانے کو ملکی مسائل کا واحد حل قرار دیتے ہیں، کچھ نیم پڑھے لکھے خواہش مند ہیں کہ انقلابِ فرانس کی طرح ہر چوک میں گلوٹین لگا کر اہل سیاست کےسرتن سے جدا کردیئے جائیں ۔ مگر یہ سارے انتقام پسند جنونی اور کم ظرف خونی یہ بھول جاتے ہیں کہ گلوٹین چلانے والے خود بھی اسی گلوٹین کا شکار بنے تھے۔ ایران میں پہلے پہلے مارنے والے خود بھی مارے گئے تھے اور جہاں سیاستدان مار دیئے جائیں گے وہاں کیا سیاست کوئی اور مخلوق کرے گی اور پھر اس مخلوق کو بھی اہل سیاست ہی تو کہا جائےگا۔دنیا انتقام، احتساب اور خون بہانے سے نہیں بدلی، یہ دنیا امن معافی اور خوش حالی سے بدلی ہے۔
علی عباس جلالپوری نے بہت پہلے لکھا تھا کہ تاریخ کا سفر دائروں میں نہیں سیدھی لکیرکی طرح طے ہوتا ہے مگر انتقام پسند اس لکیر کے راستے میں رکاوٹیں ڈال کر تاریخ کو دائروں میں محدود اور مسدود کردیتے ہیں۔ مجھے 1977ء کے واقعات اچھی طرح سے یاد ہیں کہ کس طرح بھٹو مخالفوں پر خون سوار تھا اور وہ ہر صورت میں بھٹو کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے تھے۔
انتقام، احتساب اور خون کا کھیل عروج پر تھا، بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، کیا اس کے بعد تمام مسائل حل ہوگئے یا ہم 30سال تک پروبھٹو اور اینٹی بھٹو دائرے میں گھومتے رہے۔ پیپلز پارٹی کو مٹانے کے لئے85جیسے بے اصول غیر جماعتی انتخابات کروائے گئے، جتوئی اور جونیجو کو سندھ سے وزیر اعظم بنایا گیا حالانکہ وہ سندھ سے ایک سیٹ بھی نہ جیت سکتے تھے۔ تمام بے اصولیاں، احتساب، انتقام اور خونی کھیل کے نام پر ہوئیں، خونی کھیل مہنگا پڑتا ہے بھٹو کا نام تو کسی طور پر اب بھی زندہ ہے اور بھٹو کے قاتل اور مخالف شیکسپئر کی لیڈی میکبتھ کی طرح عرب کی خوشبوئوں سے ہاتھ دھو دھو کر کہتے رہے کہ ہمارے ہاتھ بھٹو کے خون سے رنگے ہوئے نہیں مگر خون کے دھبے مٹتے نہیں ان کا رنگ بہت گہرا ہوتا ہے خوشبوئیں انہیں چھپا نہیں سکتیں۔عمران خان اب وزیر اعظم بننے والے ہیں انہیں مولا جٹ اور نوری نت کے خونی کھیل سے دور رہنا چاہئے یہ خونی کھیل بہت مہنگا پڑتا ہے۔ عمران خان ان دنوں ریاست مدینہ کے حوالے بھی دے رہے ہیں انہیں فتح مکہ کا درس بھی یاد رکھنا چاہئے، فتح مکہ کے دوران نہ کسی کا احتساب کیا گیا نہ کسی کو انتقام کا نشانہ بنایاگیا، سب کو عام معافی دی گئی
حتیٰ کہ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جگر چبانے والی ہندہ بھی بچ نکلی۔ عمران خان کو خونی کھیل کی طرف دھکیلنے والے بہت ہوں گے وہ کہیں گے کہ اگر نواز شریف کا احتساب بند ہوا تو پی ٹی آئی پر مک مکا کا الزام لگے گا، یہ دوست کہیںگے کہ زرداری کے خلاف اقدامات نہ کئے گئے تو الزام لگے گا کہ زرداری سے اندر خانے انڈرسٹینڈنگ ہو چکی ہے۔ یہ بھی کہا جائےگا کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کی وجہ ہی کرپشن کے خلاف اس کا نعرہ ہے مگر عمران خان کو فتح مکہ کی مثال سامنے رکھتے ہوئے نئے دور کی ابتداء کرنی ہوگی ایک ایسی نئی صبح جس میں خون، انتقام اور احتساب کی جگہ جذبہ، تعمیر اور عزمِ نو موجود ہو۔آیئے دوسری آپشن بھی دیکھ لیں۔ فرض کریں پی ٹی آئی احتساب اور انتقام کا سفر جاری رکھتی ہے ، نواز شریف اور مریم نوازپر سختیاں بڑھتی ہیں تو انکے لئے لازماً ہمدردی بڑھے گی اور کل کو یہ ہمدردی پی ٹی آئی کےخلاف استعمال ہوگی۔ کمزور مخلوط حکومت، طاقتور ادارے اور پھر مظلوم اپوزیشن، یہ سب کچھ پی ٹی آئی کیلئےمشکلات پیدا کرے گا۔ اس لئے بہتر ہوگا عام معافی سے شروعات کی جائے، منڈیلا کی طرح امن، خوشحالی اور معافی کا رویہ اپناتے ہوئے خون، انتقام اور احتساب کو 70سال کے طویل عرصہ بعد صرف 5سال کے لئے بند کیا جائے اور دیکھا جائے کہ اس کے مثبت نتائج کیا نکلتے ہیں؟اگر خونی کھیل جاری رہا تو پھر اس کے نتائج بھی وہی نکلیں گے جو ماضی میں نکلتے رہے ہیں۔ انتقام، خون اور احتساب کا نعرہ لگانے والے نواز شریف، بے نظیر بھٹو کے خلاف یہی سب کچھ کرتے رہے جو عمران خان کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے جیل جانے کے بعدسے عمران خان کوعبرت حاصل کرنی چاہئے اور اقتدار سنبھالتے ہی اپنا راستہ مکمل طور پر بدل کر ملک میں اصلاحات لانی چاہئیں جس سے عام آدمی کی زندگی بہتر ہو۔ ظلم سے ظلم جنم لیتا ہے، خون بہائیں تو اپنا خون بھی بہتا ہے، احتساب کریں تو خود کا احتساب بھی ہوتا ہے ۔ یاد رکھیں خونی کھیل مہنگا پڑتا ہے