لاہور (ویب ڈیسک )مختلف خدشات کے پیش ایک بار میں نے اُنہیں کہا تھا ” میری دعا ہے آپ کبھی اقتدار میں نہ آئیں کیونکہ آپ ہماری آخری اُمید ہیں“….اب ہمیں اپنی یہ آخری اُمید بر آتی ہوئی نظر آتی ہے ہم دعا گو ہیں اللہ اُن کے لئے مزید ایسی آسانیاں
نامور کالم نگار توفیق بٹ اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ پیدا فرما دے کہ پاکستان کی بہتری اور ترقی کے لئے خواب گذشتہ کئی برسوں سے وہ دیکھتے آئے ہیں وہ پورے ہو سکیں کچھ ” دنیاوی قوتوں “ کو بھی چاہے اُن کے اقتدار کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے بعد اب اُن کے لئے ایسی مشکلات کھڑی نہ کریں جو اِن قوتوں کی فطرت ہے۔ جس کے مطابق کسی کے لئے اقتدار میں آسانیاں پیدا کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد اُنہیں ” کھجلی “ ہونے لگتی ہے اور کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اس کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش شروع کر دی جاتی ہیں۔ البتہ عمران خان کے حوالے سے ایک مکلج انہیں ضرور پیش آئے گی کہ وہ کرپٹ نہیں ہیں۔ اُن کی دوسری کمزوریوں کو نظر انداز کر کے اُنہیں آزادی سے کام کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے اِس ملک کو کم از کم ترقی کے پہلے زینے پر وہ ضرور چڑھا دیں گے…. ویسے کبھی کبھی مجھے اب بھی یہی محسوس ہوتا ہے بالآخر ایک ایسے شخص کو اقتدار میں شاید نہ لایا جائے جو مالی طور پر بددیانت نہیں ہے کیونکہ دنیاوی طاقتوں کے پاس کسی سیاسی حکمران کی ” مالی بددیانتیاں“ ایک بہت بڑا بہانہ یا حربہ ہوتی ہیں
جسے وہ جب چاہیں اُس کے خلاف استعمال کر کے اُس کے نیچے سے تخت کھینچ کر اُسے تختہ دار تک پہنچا سکتی ہیں…. اِن ” دنیاوی قوتوں “ جنہیں ہم ” اسٹیبشلمنٹ“ کے گندے نام سے بھی یاد کرتے ہیں کو شریف برادران اور زرداری جیسے سیاستدان ہی بطور حکمران سُوٹ کرتے ہیں۔ لہٰذا عمران خان کے بے شمار چاہنے والوں کی طرح فی الحال میں ایمان کی حد تک اِس یقین یا کیفیت میں مبتلا نہیں کہ 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں بڑی آسانی سے اُنہیں وزیر اعظم بنا دیا جائے گا۔ اب تک تو اُسے استعمال ہی کیا جاتا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے دنیاوی قوتیں عرف اسٹیبلشمنٹ اب اپنی سابقہ روایتوں‘ گناہوں یا جرموں سے توبہ کر کے اِس ملک کو واقعی ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن دیکھنا چاہتی ہوں اور اپنی اِس فطرت سے باز آگئی ہوں کہ اپنے مقابلے میں کسی اور کو کسی عزت کے مقام پر کھڑے ہی نہیں ہونے دینا…. کالم کسی اور طرف نکل گیا…. میں عرض کر رہا تھا عمران خان کے بارے میں مشہور ہے وہ ہر کسی کو ” تم “ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ مجھے اُنہوں نے ہمیشہ بڑی عزت دی۔ مجھے اُنہوں نے ہمیشہ ” بٹ صاحب “ کہہ کر پکارا۔ میں نے اُنہیں جب بھی کوئی مخلصانہ مشورہ دیا بعض اوقات اُنہوں نے اپنے مزاج سے ہٹ کر اُس پر عمل کیا۔
پی ٹی آئی کو چھوڑ کر جانے والی ایک خاتون کے بارے میں انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کچھ نامناسب الفاظ کہے تھے۔ میں نے اِس پر شدید احتجاج کیا اور اُنہیں مشورہ دیا اِس پر اُنہیں معذرت کرنی چاہئے۔ میرے اِس مشورے پر انہوں نے عمل کیا اور فون پر ان سے معذرت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا ریحام خان نامی گرامی عورت نے ابتدائی طور پر جب پی ٹی آئی اور عمران خان پر گند اُچھالنے کی کوشش کی اُس خاتون نے اِس کی شدید مذمت کی…. مجھے عمران خان کی کوئی حرکت بُری لگی یا اُن کا کوئی ایسا عمل جسے میں نے اخلاق و سیاسی لحاظ سے اچھا نہیں سمجھا اُس پر کھل کر تنقید کی۔ اُن کے ادب میں بعض اوقات اُن کے منہ پر تنقید نہ کر سکا تو اُنہیں واٹس ایپ پر میسج کر دیا۔ جس کا کبھی اُنہوں نے بڑی تفصیل سے جواب دیا، کبھی نظر انداز کر گئے۔ حُب الوطنی اور ایمانداری کے علاوہ اُن کی ایک اور خوبی جس نے زندگی میں ہمیشہ مجھے بڑا متاثر کیا وہ اتنے خوشامد پسند نہیں ہیں جتنے ہمارے دوسرے سیاستدان عموماً ہوتے ہیں۔ حد سے زیادہ اُن کے منہ پر کوئی اُن کی تعریف یا خوشامند کرے انتہائی ناگوار تاثرات اُن کے چہرے پر نمایاں ہوتے ہیں اور وہ ” چُپ کرو‘ چپ کرو‘ مجھے پتہ ہے “ کہہ کر خوشامدی کا منہ بند کروا دیتے ہیں۔ اور ہاں یاد آیا وہ اگر دوسروں کو ” تم “ کہہ کر بلاتے ہیں تو اُنہیں بھی کوئی ” تم “ کہہ کر بلائے وہ بُرا نہیں مناتے