Saturday November 16, 2024

کئی ہفتوں سے جاری تحریک انصاف کی لہر الیکشن سے ایک ہفتہ قبل ٹھنڈی کیوں پڑ گئی ہے ، کیا عمران خان کی مقبولیت کم ہو گئی یا معاملہ کچھ اور ہے؟ نامور صحافی کا شاندار تبصرہ ملاحظہ کیجیے

لاہور(ویب ڈیسک)اگر تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری اپنا جہلم کا عظیم الشان جلسہ دیکھ کر بھی پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کا اپنا اعلان دوبارہ دہرانے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، ویسے تو اس زمانے کو یاد کر کے جب وہ جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری

صف اول کے کالم نگار قدرت اللہ چودھری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کے گن گایا کرتے تھے اور اپنے آج کے لیڈر عمران خان کو صلواتیں سنایا کرتے تھے اگر بدمزہ نہیں ہوتے تو پھر غالب کے الفاظ میں کہنا پڑے گا۔عمران خان بڑے جلسوں سے خطاب کے عادی اور رسیا ہیں معلوم نہیں اپنے سامنے بیٹھے چند سو مایوس لوگ اور خالی کرسیاں دیکھ کر ان پر کیا گزری ہو گئی۔ یہ جلسہ فواد چوہدری نے سجایا تھا اب اگر یہی ان کے ووٹر بھی ہیں تو ان کی کامیابی کا اندازہ لگانے کے لئے ادھر ادھر دیکھنے کی چنداں حاجت ہیں، جن لوگوں نے انہیں چینلوں پہ گوہر افشانیاں کرتے سنا وہ تو یہی سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور اس کے نتیجے میں وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش بھی دل میں پالے ہوئے ہیں لیکن سنا ہے اس جلسے کے بعد وہ بجھے بجھے سے ہیں تاہم اب بھی دعویٰ یہی ہے کہ جہلم کپتان کا ہے۔ حیرت ہے کپتان ایسے جہلم کو کیا کرے گا جہاں چند سو لوگ بھی اسے سننے کے لئے نہ آئیں جن لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان کی تصویر دیکھی وہ تو اس تصویر پر منفی تبصرے بھی کر رہے ہیں

لیکن ہمارا خیال ہے کہ آدمی ہر وقت ایک جیسی کیفیت میں نہیں ہوتا، ٹی وی سٹوڈیو پر بیٹھ کر اس کی کیفیت کچھ اور ہوتی ہے کیونکہ سامنے کوئی مجمع نہیں ہوتا جس نے زندہ باد کے نعرے لگانے ہوتے ہیں وہاں آپ اپنی من پسند گفتگو جیسے چاہیں کر سکتے ہیں لیکن عمران خان جہلم میں جن لوگوں کو خطاب کرنے آئے تھے ان کی تعداد دیکھ کر انہوں نے بمشکل چند جملے کہے اور بلے پر مہر لگانے کی یاد دہانی کرا کے چلے گئے تاہم انہوں نے بعد میں فواد چوہدری کی سرزنش بھی کی، جلسے میں حاضرین تھوڑے تھے یا زیادہ، اس سے قطع نظر بدنظمی اور بد انتظامی بھی نمایاں تھی جس کا عمران خان نے نوٹس لیا، یہ تو جہلم کے جلسے کا حال ہے، لیکن عمران خان نے یہ کہہ کر بھی چونکا دیا ہے کہ الیکشن کے بارے میں ان کے پاس کوئی اچھی خبریں نہیں آ رہیں، حالانکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آباد میں ان کے مدمقابل آل پاکستان مسلم لیگ کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ان کے حق میں دستبردار ہو گئے غالباً انہوں نے سوچا ہو گا کہ وہ کئی حلقوں سے انتخاب لڑ رہے ہیں تو اسلام آباد میں عمران خان کے لئے اظہار خیر سگالی کر دینا چاہئے ۔

آل پاکستان مسلم لیگ کے حقیقی لیڈر جنرل پرویز مشرف ہمیشہ سے عمران خان کی صلاحیتوں کے معترف رہے ہیں، البتہ بعض اوقات وہ صاف گوئی سے کام لے کر یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ عمران خان اپنے بارے میں اندازے لگانے میں بڑے فراخ دل واقع ہوئے ہیں جنرل مشرف نے حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ 2002ء کے انتخابات کے موقع پر انہوں نے عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اگر چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ اتحاد کر لیں تو انہیں قومی اسمبلی کی چھ سات نشستیں مِل جائیں گی، یہ سن کر عمران خان نے کہا ’’جنرل صاحب میں تو اپنے طور پر ایک سو نشستیں جیت رہا ہوں مجھے چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ اتحاد کی کیا ضرورت ہے ‘‘ جنرل صاحب کے اس لوز بال پر عمران خان نے جس انداز میں چھکا مارا تھا اب ان کے پاس خاموش رہنے کے سوا کیا راستہ تھا لیکن سب کو معلوم ہے کہ عمران خان ان انتخابات میں صرف اپنی نشست جیت سکے تھے اور ان کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا تھا، اب بھی اگر کامیابی کے بارے میں ان کے اندازے یہی ہیں جو ان کے ترجمانوں کے دعوؤں کی روشنی میں سامنے آ رہے ہیں یا

ان کے ہمدرد جو تعداد مختلف واسطوں سے سامنے لا رہے ہیں تو اس کا جائزہ 2002ء کے دعوے کی روشنی میں لینا چاہئے ماضی کا حوالہ مستقبل کے تجزیئے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے جنرل پرویز مشرف اب بھی عمران خان کے بارے میں اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کی کامیابی کے لئے بھی نیک خواہشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے چیئرمین کو عمران خان کے مقابلے سے دستبردار کرایا۔ اگر یہ دستبرداری ذرا پہلے ہوتی تو بہتر تھا بہرحال اس سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ اسلام آباد میں بھی عمران خان کو شاہد خاقان عباسی سے سخت مقابلہ کی توقع ہے ورنہ یوں دستبرداری کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اور اگر عمران خان کو اپنی کامیابیوں کی قوی امید ہے تو پھر انہیں یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ الیکشن کے بارے میں اچھی خبریں نہیں آ رہیں، ہمارے خیال میں انہوں نے اپنی اس مایوسی کا اظہار بنوں کے حوالے سے کیا ہو گا جہاں سے اکرم درانی کی کامیابی کا قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، اس صوبے پر تحریک انصاف پانچ سال تک حکمران رہی اور اپنے دعوے کے مطابق صوبے کی ترقی کو چار چاند لگا دیئے، لوگ دور دور سے ترقی بچشم خود دیکھنے آتے ہیں اور دانتوں میں انگلیاں داب کر واپس جاتے ہیں، ایک پسماندہ صوبہ ان کی حکمرانی کی بدولت جگمگا رہا ہے، پولیس غیر سیاسی ہو گئی ہے اول تو جرائم ہوتے نہیں، ہوں تو مجرم چشم زدن میں پکڑے جاتے ہیں اٹک کے پار اترتے ہی خوشگوار تبدیلی کا احساس ہوتا ہے، البتہ اس کا دیدار کرنے کے لئے آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں لیکن بعض متعصب لوگ آنکھیں بند کر کے اس خیرہ کن ترقی کو دیکھنا چاہتے ہیں جو لوگ عمران خان کی جماعت کی حیران کن ترقی دیکھنا چاہتے ہیں انہیں چاہئے کہ لائن بنائے بغیر پشاور کی ٹکٹ کٹائیں اور جا کر بچشم خود ترقی دیکھیں واپس آ کر وہ تحریک انصاف کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو جائیں گے۔میٹرو کے کھدے ہوئے گڑھے تو غاروں کے رومانوی دوریں لے جاتے ہیں۔

FOLLOW US