اسلام آباد (ویب ڈیسک) ملک میں الیکشن 2018ء کی آمد سے قبل سیاسی جماعتوں میں جوڑ توڑ اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ سمیت دیگر کئی معاملات طے پا رہے ہیں، ایسے میں مولانا فضل الرحمان کو نواز شریف کا ساتھ دینا مہنگا پڑ گیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے مسلم لیگ ن کے ساتھ خفیہ اور اعلانیہ اتحاد کے باعث 5 دینی جماعتوں پر مشتمل مذہبی اتحاد میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ مجلس عمل میں شامل 2 بڑی مذہبی جماعتوں
جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے ملک کے مختلف حلقوں میں مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کی پالیسی پر سوالات اٹھ گئے ہیں ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے سوات میں مجلس عمل کے اُمیدوار کو مسلم لیگ ن کے اُمیدوار شہباز شریف کے حق میں دستبردار کروانے پر ایم ایم اے میں شامل دیگر جماعتوں کے کارکنوں سمیت پارٹی رہنماؤں میں نہ صرف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے بلکہ مولانا فضل الرحمان کے اس بیانے پر بھی شدید تنقید کی جا رہی ہے کہ مجلس عمل نے انتخابی منشور میں سودی نظام کے خاتمے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے جو وعدے کئے ہیں ، ایسا کرنے سے ان پر عمل درآمد کیسے ممکن ہو سکے گا؟ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان سودی نظام اور ختم نبوت ﷺ کے معاملے پر سخت تنقید کرتے رہے ، انہوں نے انتخابی مہم میں بھی ن لیگ کی ان دو باتوں پر سخت تنقید کی جبکہ دوسری طرف وہ ایک مرتبہ پھر اپنے نظریات سے پھر گئے اور سوات میں اپنے اُمیدوار کی مہم چلانے کے بجائے لیگی اُمیدوار کی حمایت کررہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے حلقہ این اے 54 میں بھی جماعت اسلامی کے اُمیدوار میاں اسلم نے بھی اپنی سیٹ نکالنے کے چکر میں ن لیگ کے اُمیدوار شاہد خاقان عباسی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے پر عمل درآمد کی یقینی دہانی کروا
رکھی ہے ۔ مجلس عمل میں شامل دیگر جماعتوں نے جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی انتخابی سیاست پر شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے ۔ خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمان گذشتہ حکومت میں بھی ن لیگ کے اتحادی تھے۔