Wednesday October 23, 2024

ـ” تمھارے بیٹے کو اغوا کر لیا گیا ہے، فوری طور پر تین لاکھ روپے کا بندوبست کرواور پولیس کو بتانے کی غلطی نہ کرنا” گوجرانوالہ کے ایک غریب سکیورٹی گارڈ پر ایک فون کال نے بجلی گرا دی، لیکن پولیس کو شک گزرا تو معاملے کی حقیقت کچھ اور ہی نکلی

گوجرانوالہ ( مانیٹرنگ ڈیسک)یورپ جانے کے لئے نوجوان نے اپنے ہی اغواء کا ڈرامہ رچا دیا جو ناکام ہو گیا ، والد کی جانب سے مقدمہ واپس لیے جانے پر ملزم کو رہا کر دیا گیا۔بی بی سی کے مطابق گوجرانوالہ کے رہائشی 23 سالہ محمد حذیفہ چند روز قبل گھر سے غائب ہوگیا تھا جس پر اس کے والد کو فون پر اطلاع ملی کہ اس کے بیٹے کو اغوا کر لیا گیا ہے۔

اغوا ء کار نے رہائی کے عوض تین لاکھ روپے کا مطالبہ کیا اور انتباہ کی کہ پولیس کو اس معاملے کی خبر نہ ہو ورنہ ان کے حق میں بہتر نہ ہو گا۔حذیفہ کے والد محمد الیاس فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان دنوں سکیورٹی گارڈ کی نوکری کر رہے ہیں اور تین لاکھ ان کے لیے ایک بڑی رقم تھی جس کا فوری طور پر بندوبست کرنا ممکن نہیں تھا۔الیاس نے اغوا کار سے تاوان کی رقم پر سودے بازی کرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں انہیںزیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاہم وہ نئی اور کم طے شدہ رقم دینے کے قابل بھی نہیں تھے۔ انہوں نے نے بالآخر پولیس سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔گوجرانوالہ شہر کے ماڈل ٹان پولیس سٹیشن کے انچارج انصر جاوید نے بتایا کہ محمد الیاس کی شکایت پر اغوا ء کی رپورٹ درج کرنے کے بعد ابتدائی حالات و واقعات سنتے ہی پولیس کو معاملے میں گڑبڑ کا اندیشہ ہوا۔اغوا کار عموماً کسی کو اٹھانے سے پہلے اس بات کا اطمینان کر لیتے ہیں کہ انہیںتاوان میں اچھی رقم مل سکتی ہے اور وہ عموماً اتنی چھوٹی رقم تاوان میں نہیں مانگتے اور پھر آسانی سے اس میں کمی پر آمادہ نہیں ہوتے۔انسپکٹر انصر کے مطابق اغوا کار کی ابتدائی مانگ تین لاکھ کی تھی مگر آخر میں وہ دس ہزار تک آ گیا تھا۔ ایسا پیشہ ور اغوا ء کار نہیں کرتے۔ پولیس کا

شک مزید پختہ ہونا شروع ہوا۔پولیس کے کہنے پر محمد الیاس نے اغوا ء کار سے سودے بازی جاری رکھی جبکہ دوسری جانب پولیس فون نمبر کی مدد سے اغوا کار کا سراغ لگانے میں لگ گئی۔پولیس انسپکٹر کے مطابق فون کال کا پیچھا کرتے ہوئے اغوا ء کار کا سراغ لاہور شہر میں داتا دربار کے علاقے میں ملا۔ تین روز تک ہم نے اس کا مشاہدہ کیا۔ اس نے جگہ نہیں بدلی۔اب سوال یہ تھا کہ نشاندہی کے اس مقام پر کارروائی کی جائے؟ اس سے مغوی کو ممکنہ طور پر نقصان بھی ہو سکتا تھا؟تاہم مبینہ اغوا ء کے تقریباً پانچ روز بعد پولیس نے لاہور کے داتا دربار کے علاقے میں نشاندہی کیے گئے مقام پر مغوی کی بازیابی کے لیے چھاپہ مارا۔وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ وہاں اغوا کار تو کوئی نہیں صرف مغوی خود ہی موجود تھا۔ تفتیش پر پتہ چلا کہ محمد حذیفہ نے بیرون ملک جانے کیلئے رقم کے حصول کے لئے خود اپنے اغوا کا ڈرامہ رچایا تھا جسے پولیس نے گرفتار کر لیا۔اس نے خود اغوا کار بن کر اپنے والد کے ساتھ فون پر رابطہ قائم کیا اور تاوان کا مطالبہ کیا اس کام کے لیے اس نے اپنے موبائل فون میں دوسرا سِم کارڈ اور آواز بدلنے والا سافٹ ویئر استعمال کیا۔تفتیش کے دوران حذیفہ نے پولیس کو بتایا کہ وہ ملک سے باہر جانا چاہتے تھے جس کے لیے کچھ عرصہ قبل انہوںنے اپنے والد سے پیسوں کا مطالبہ کیا تھا جو انہیں نہیں مل پائے تھے۔پولیس کے مطابق حذیفہ نے بتایا کہ وہ جانتے تھے کہ ان کے والد کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں مگر پیسوں کا بندوبست کرنے کا انہیں اس کے علاوہ کوئی طریقہ نظر نہیں آیا۔تاہم اس نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہے جس پر اس نے اپنے والد سے بھی معافی مانگ لی ۔مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عمل پر معافی مانگی۔والد محمد الیاس کی جانب سے بھی معاف کرنے کے بعد پولیس نے ان کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا ۔

FOLLOW US