اسلام آباد: تحریک انصاف نےکل تمام دن ملک بھر میں فساد کھڑ ا کر رکھا۔پی ٹی آئی کے غنڈہ نما کارکنان نے پہلے تو قانون نافذ کرنیوالے اداروں کیخلاب محاذ کھولے رکھا۔پولیس اہلکاروں پر پتھروں اور ڈنڈوں سے حملہ کرتے رہے تاہم جب پولیس نے جوابی کارروائی کی اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو سبق سکھایا تو پی ٹی آئی رہنمائوں اور کارکنان کی چیخیں آسمان تک پہنچیں۔پی ٹی آئی کارکنان نے امن و امان کی صورتحال کو قائم رکھنے کیلئے بند راستوں کو کھولنا شروع کر دیا ۔تحریک انصاف کے یہی کارکنان جہاں جہاں سے گزرتے گئے ۔
جس شہر سے قافلہ گزراوہاں تباہی مچاتا گیا۔اسلام آباد پہنچتے ہی ایسے حملہ آور ہوئے جیسے کوئی فوج دشمن کے شہروں پر حملہ آور ہوتی ہے۔سڑکوں کے ارد گرد جلائو گھیرائو کیا،جیو نیوز کی عمارت پر پتھروں سے حملہ کیا۔اسلام آباد میں میٹروبس سٹیشن کو آگ لگادی گئی ۔عمران خان کا دعویٰ تھا ہمارا مارچ ہمیشہ کی طرح پر امن ہو گا جبکہ کون نہیں جانتا عمران خان نے جب بھی لانگ مارچ کے نام پر جتھوں کو وفاقی دارالحکومت پر حملہ آورکروایاہمیشہ شہر بلکہ ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں۔2014میںپارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ کروایا گیا، سپریم کورٹ کے سامنے ہنگامہ آرائی ہوئی ،پی ٹی وی پر حملہ کیا گیا۔تاہم عمرا ن خان اور سپورٹرز نے اس بار بھی اپنی روایت قائم رکھی اور ملک بھر میں ہنگامہ آرائی کی گئی ۔سرکاری املاک کو جلایا گیا۔لاہور میں ایک پولیس اہلکار کو شہید کرنے سمیت متعدد پولیس اہلکار جو عوام کی ہی حفاظت پر مامور تھے ان پر تشدد کروایا گیا۔ سپریم کورٹ بھی عمران خان کے اس مارچ میں سہولتکاری کا کردار اداکرتی رہی۔ سپریم کورٹ نے عمران خان کے مارچ کے آگے سے تمام رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا اور کپتان کے کھلاڑیوں کے پاس کھل کر کھیلنے کا موقع ہاتھ آگیا۔سپریم کورٹ نے واضح ہدایات دی تھیں کہ اسلام آباد انتظامیہ عمران خان کو ایچ نائن اور جی نائن کے درمیان جلسہ کرنے کی اجازت دے جو کہ دیدی گئی ۔
” پی ٹی آئی کے خلاف یہ بات ثابت نہ ہو تو میرا نام ثاقب نثار رکھ دینا” سلیم صافی کا چیلنج
لیکن عمران خان اپنے قافلے کو لے کر ڈی چوک تک پہنچے اور کھلم کھلا سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی گئی ۔ سپریم کورٹ کے حکم کو نیازی نے اپنے پیروں تلے رونداجس پر عمران خان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کر دی گئی ۔ تاہم معزز سپریم کورٹ نے عمران خان کیخلاف توہین عدالت کی درخواستیں مسترد کردیں اور ریمارکس دیئے گئے کہ ’’ممکن ہے عمران خان کو جلسے کا مقام کسی نے نہ بتایا ہو‘‘۔عدالتی ریمارکس پر خوب تنقید کی جارہی ہےاور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے عدالتوں سے اپنی حیثیت کلئیر کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔