لاہور : لاہور ہائیکورٹ نے منشیات کیس میں 8 سال قید کی سزا پانے والی ٹریزا ہلیسکووا کو بری کردیا تھا۔اب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے منشیات کیس میں 8 سال کی سزا پانی والی چیک ریپبلک کی ٹریزا کی بریت کا فیصلہ جاری کردیا، فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ٹریزا کی جس خاتون کانسٹیبل نے ائیرپورٹ پر تلاشی لی اسے گواہ ہی نہیں بنایا گیا،تلاشی لینے والی کانسٹیبل کو گواہ نہ بنا کر استغاثہ نے سب سے اہم گواہی روکی،اس پر کوئی تفتیش نہیں کی گئی کہ ائیر پورٹ سے کسٹم ہائوس مبینہ منشیات کب اور کیسے پہنچی،ائیر پورٹ سے سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں لی گئی،ایسے واقعات میں سی سی ٹی وی ضروری ہوتی ہے جس سے جھوٹے کیس کا امکان ختم ہو جاتا ہے،مدعی کا یہ بیان ہونا چاہیے تھا کہ اس نے کیس پراپرٹی کسٹم ہاوس جمع کرائی،استغاثہ کے کیس میں ایسے نقائص کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،استغاثہ ٹریزا کے خلاف کیس کو ثابت کرنے میں ناکام رہی اسلئے اسے بری کیا جاتا ہے۔
اضح رہے کہ منشیات اسمگلنگ کیس کا فیصلہ بارہ مارچ کو محفوظ کیا گیا تھا۔ غیر ملکی ماڈل کو 10 جنوری 2018ء کو ساڑھے آٹھ کلو ہیروئن اسمگلنگ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔جس کے بعد وہ جیل میں قید اور پیشیاں بھُگت رہی تھیں۔ ملزمہ کے خلاف نو گواہان نے بیانات ریکارڈ کروائے۔ غیر ملکی ماڈل کے ساتھ مزید چار ملزمان کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔ کیس کے تین ملزمان اشتہاری جبکہ شعیب نامی ایک ملزم زیر حراست ہے جسے بری کر دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ غیر ملکی ماڈل ٹریزا کے کیس کا ٹرائل تقریباً 14 ماہ تک چلا۔ پاکستان میں رہتے ہوئے ماڈل ٹریزا نے شلوار قمیض پر دوپٹا اوڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ایک سماعت پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے غیر ملکی ماڈل ٹریزا کا کہنا تھا کہ میں نے جیل میں پاکستانی کلچر اور قیدی کی زندگی پر دو کتابیں لکھی ہیں اور میں رہائی پانے کے بعد جلد ہی میں ان کتابوں کو چھپواؤں گی۔ انہوں نے کہا کہ جیل میں ساتھی خواتین بھی بہت اچھی ہیں۔پاکستانی قومی زبان کے ساتھ ساتھ سلائی کا کام بھی سیکھ رہی ہوں۔ دسمبر میں ہونے والی سماعت پر ماڈل نے کرسمس سے پہلے ہی فیصلے سنائے جانے کی خواہش ظاہر کی لیکن اس دوران جج کا تبادلہ ہوگیا تھا۔
فواد چوہدری نے فنڈنگ کے الزامات سامنے آنے پر فافن کے خلاف تحقیقات کی ہدایت کردی
’نوجوت سنگھ سدھو کو پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی تعریف کرنا اوربڑابھائی کہنا مہنگا پڑ گیا‘