فاریکس ایسوسی ایشن سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ڈالر کی قیمت 60 پیسے اضافے کے بعد 165 روپے 40 پیسے ہوگئی جوکہ ساڑھے 10 ماہ کی بلند ترین سطح ہے۔ اس سے پہلے ستمبر 2020ء میں ڈالر کی قیمت 165.97 روپے تھی۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر پراچہ ایکسچینج ظفر پراچہ نے سماء ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد خطے میں امن و امان کی صورتحال غیر یقینی ہوتی جا رہی ہے، جس کے بعد حکومتِ پاکستان کی تشویش بھی بڑھ گئی ہے کہ آئندہ دنوں افغانستان کے ساتھ تعلقات کیسے رہیں گے۔ اسکے علاوہ افغانستان میں ڈالر کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور بڑی تعداد میں پاکستان سے ڈالر کی اسمگلنگ ہو رہی ہے۔ ظفر پراچہ نے مزید کہا کہ اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے حکومت پاکستان اچھے اقدام اٹھا رہی ہے لیکن پھر بھی اس پر مزید قابو پانے کی ضرورت ہے۔
پولیس نے یادگار قائداعظم کے سامنے غیر اخلاقی فوٹو شوٹ کرنے والے نوجوان کو گرفتار کر لیا
ظفر پراچہ کے مطابق گزشتہ مالی سال پاکستان کی برآمدات، ترسیلات زر اور زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے اور اگر حکومت کا آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو روپے کی قدر میں کمی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی اور ایک سے ڈیڑھ ماہ میں ڈالر کی قیمت دوبارہ 160 روپے کی حد تک آجائے گی۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھ گئی ہے جس سے درآمدی بِل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چئیرپرسن فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان ملک بوستان کے مطابق حکومت اگلے پانچ ماہ میں 10کروڑ کرونا ویکسین کی خوراکیں درآمد کرے گی، درآمدات کی مد میں رقم کی ادائیگی ڈالر میں ہونے سے ڈالر کی طلب میں اضافہ ہوا اور قیمت بڑھ گئی۔ اسکے علاوہ جولائی میں پاکستان کی درآمدات میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے ڈالر پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ملک بوستان کے مطابق حکومت اگر ایمنسٹی اسکیم کا اعلان دوبارہ کرتی ہے تو ڈالر کی قیمت دوبارہ 155 سے 156 روپے تک ہوجائے گی۔ ایک نجی بینک کے ٹریڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر سماء ڈیجیٹل کو بتایا کہ ان دنوں درآمدات کی مد میں بڑی تعداد میں رقم کی ادائیگی کی جا رہی ہے جس سے ڈالر پر دباؤ بڑھا ہے اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔