اسلام آباد: جنھوں نے پاکستان مخالف بیان دینے والوں کو اپنے ڈڑاینگ روم میں بٹھایا، اُنھیں آج سیالکوٹ والوں نے بھی مسترد کر دیا، سیالکوٹ ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد حکومت کا ردعمل۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ جنھوں نے پاکستان مخالف بیان دینے والوں کو اپنے ڈڑاینگ روم میں بٹھایا، اُنھیں آج سیالکوٹ والوں نے بھی مسترد کر دیا۔ یہ نون لیگ کا 2018 میں جیتا ہوا حلقہ تھا جس نے آج تیں سال بعد تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ کیا۔واضح رہے کہ پی پی 38 سیالکوٹ ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کو 30 سال بعد اس نشست پر شکست ہوئی ہے۔ تحریک انصاف پنجاب کے اہم ترین حلقے ن لیگ سے چھین کے صوبے کی سیاسی تاریخ کا بڑا اپ سیٹ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
پی پی 38 سیالکوٹ ضمنی الیکشن، مسلم لیگ ن کو 30 سال بعد اس نشست پر شکست
صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 38 میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے سلسلے میں ہونے والی پولنگ کے بعد غیر سرکاری غیر حتمی نتائج موصول ہونے کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ اطلاعات کے مطابق اب تک 165 میں سے تمام پولنگ اسٹیشنوں کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج سامنے آچکے ہیں ، جن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار احسن سلیم بریار 61 ہزار 07 ووٹ لے کر فتحیاب قرار پائے، جبکہ لیگی امیدوار طارق سبحانی 53 ہزار 471 ووٹ حاصل کر سکے، یوں حکمراں جماعت نے یہ ضمنی الیکشن جیت لیا، تاہم سرکاری اعلان ہونا باقی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مسلم لیگ ن کو سیالکوٹ کی اس نشست پر 30 سال بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران ن لیگ ہمیشہ اس نشست پر فتحیاب ہوتی رہی، تاہم اب حکمراں جماعت تحریک انصاف نے ن لیگ کی مضبوط ترین نشست چھین لی ہے۔ دوسری جانب ضمنی الیکشن کے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے حوالے سے معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے بھی ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی پی 38 میں بلے نے شیر کی ٹانگیں توڑ دیں، آرکریں گے پار کریں گے، شیر کے ٹکڑے 4 کریں گے۔
اس سے قبل حلقے میں ضمنی انتخاب کیلئے ووٹنگ شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہی تاہم ووٹنگ سے قبل بارش کے باعث بعض مقامات پر عملے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس سے پولنگ کا عمل جزوی طور پر متاثر ہوا۔ ضمنی انتخاب کے دوران پی ٹی آئی اور نون لیگی کارکن بھی آمنے سامنے آئے۔پولنگ اسٹیشن وارڈ 122 اور 123 پر پاکستان تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ نون کے کارکنوں میں ہاتھا پائی ہوئی۔