میرپور ماتھیلو: سانحہ ریتی ٹرین حادثہ میں ہاتھ آنے والی نوجوان لڑکی اڑہائی لاکھ روپے میں فروخت کرنے کی کوشش، خریداروں نے بولی دولاکھ لگائی ، سودا نہ ہونے پر پردہ فاش ، ایس ایس پی گھوٹکی کی جانب سے تحقیقات کا حکم، کوئی لڑکی فروخت نہیں ہورہی ہے، الزامات مخالفیں نے لگائے ، تفصیلات کے مطابق تقریبا ڈیرہ ماہ قبل سانحہ ریتی ریلوے اسٹیشن پر خاندان سے بچھڑ کر ایک 15/ 16 سالہ لڑکی ریتی کے قریب واقع گائوں چک چوہدری ارشد آرائیں کی زمین پر کام کرنے والے دو افراد قالو اور بھورل سمیجو کو زخمی حالت میں ملی تھی جو کہ کراچی کے کسی علاقے کی رہائشی بتائی جا رہی تھی ،
لیکن وہ ٹرین حادثے کے دوران اپنے خاندان والوں سے بچھڑ کر ان افراد کو مل گئی جنہوں نے اس کو علاج کرانے کے بعد واپس ورثا کے ہاں بھیجنے کا بھی کہتے رہے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ لڑکی نے ایک دو مرتبہ ان لوگوں کے گھر سے نکلنے کی کوشش کی لیکن راستے ان جان اور سنسان ہونے کیوجہ سے فرار نہ ہوسکی ،چند روز قبل اس لڑکی کو مہر قبیلے کے افراد کے ہاتھ بیچنے کا فیصلہ ہوا لیکن انہوں نے دولاکھ روپے دینے کا کہا لیکن قالو اور بھورل سمیجو والوں نے اڈہائی لاکھ روپے طلب کئے جس کی بنا پر سودا طئے نہ ہوسکا اور بات لیک ہوگئی اس طرح کی اطلاع ملنے پر ایس ایس پی گھوٹکی عمر طفیل نے ڈی ایس پی اوباڑو محمد پناہ بھٹو کو موقع پر پہنچ کر تحقیقات کرنے کا حکم دیا،تاکہ واقعے ک اصل حقائق کا پتہ چل سکے ، دوسری جانب گھوٹکی پولیس کے ترجمان نے اس تمام واقعات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بیروٹا لنک روڈ کے نزدیک رہائش پذیر بھورل سمیجو نے اپنی ایک بیٹی شازیہ سمیجو کی شادی اپنی برادری کے ایک شخص ظہور احمد سمیجو سے کی ہوئی ہے اور وہ رحیم یار خان ضلع کے علاقے ابوظہبی روڈ کے قریب ایک گاں میں رہتے ہیں ، ظہور احمد سمیجو کی تین بیٹیاں ذہنی طور پر معذور ہیں ،اس کی بیٹی نادیہ اپنے نانا بھورل سمیجو ،اور ماموں قالو سمیجو سے ملنے آئی تھی جو کہ ذہنی توازن درست نہ ہونے کے باعث بار بار گھر سے نکل کر یہ کہتی کہ میں اپنے گھر جانا ہے مجھے چھوڑ دو ، جس پر ان کے مخالفیں نے یہ خبر اڑادی کہ یہ لڑکی ٹرین حادثے میں ملی ہے اور اس کو فروخت کیا جا رہا ہے ، ترجمان نے کہا کہ اگر ٹرین حادثے میں لڑکی غائب ہوتی تو اس کے ورثا یا کوئی اور ذرائع سے خبر ملتی لیکن ایسی کوئی خبر نہیں ملی ۔
جہلم میں دولہے میاں اپنی دلہن کو لینے ہیلی کاپٹر پر آ پہنچے، ویڈیو وائرل
News Source: UrduPoint