ہماری اس پاک سرزمین کے قائم و دائم رہنے پر ایک جانب تو اللہ تعالیٰ کی خصوصی کرم نوازی شامل ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑا ہاتھ ہماری پاک فوج کا بھی ہے جن کے جذبہ شہادت نے اس پاک وطن کو دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو ہمیشہ خاک میں ملا یا ہے ۔ ان جوانوں کی قربانی نے ہمیشہ دشمن کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس ملک کی جانب بڑھنے والے ہر ناپاک ارادے کو نہ صرف ناکام بنا دیا جائے گا بلکہ اس کے لیے اپنے پاک خون کو بہانے میں ایک لمحہ بھی نہیں ہچکچایا جائے گا-
ایسے ہی ایک نوجوان کیپٹن اسفندیار بخاری بھی تھے جنہوں نے ستمبر 2015 میں بڈھ بیر کے مقام پر جام شہادت نوش کیا تھا- حالیہ دنوں میں ان کی قبر کے ساتھ لیٹے ان کے والد ڈاکٹر فیاض بخاری کی ایک تصویر نے سوشل میڈيا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا- ڈاکٹر فیاض بخاری جن کا تعلق اٹک سے تھا ان کے گھر 1988 میں جب پہلے بیٹے اسفندیار کی پیدائش ہوئی تو انہوں نے اپنے اس بیٹے کو پہلی بار گود میں لے کر جب اس کی پیشانی پر اپنے لب رکھے تو اس کے ساتھ ہی اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ اس کو بھی اپنی طرح ایک مسیحا بنانا چاہتے ہیں- خوبصورت آنکھوں اور ذہین اور مودب مزاج والا اسفند یار ان کی کل کائنات بن گیا سارا دن کی تھکاوٹ کے بعد جب وہ اپنے اس لعل کو اپنے بازو پر لٹاتے اور اس کی توتلی زبان میں باتیں سنتے تو ان کی تھکاوٹ لمحوں میں غائب ہو جاتی تھی- تعلیمی میدان میں تیزی سے کامیابیوں کا سفر طے کرتے ہوئے جب اسفندیار نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا تو انہوں نے اس کا داخلہ پری میڈیکل میں کروا دیا تاکہ ان کا بیٹا بھی ان ہی کی طرح ڈاکٹر بن سکے- مگر اسفندیار نے والد سے درخواست کی کہ وہ ڈاکٹر بننے کے بجائے فوج میں جانا چاہتا ہے
تاکہ اپنے ملک و قوم کے لیۓ کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے- ڈاکٹر فیاض بخاری بیٹے کی اس خواہش کے آگے سر تسلیم کر بیٹھے اور اسفند یار نے بطور کیڈٹ کاکول میں تربیت حاصل کرنی شروع کر دی- کہتے ہیں جب آپ اپنی پسند کے شعبے میں قدم رکھ دیتے ہیں تو ترقی کے دروازے آپ کے لیے خود بخود کھلنا شروع ہو جاتے ہیں ایسا ہی کچھ اسفندیار کے ساتھ بھی ہوا اور انہوں نے پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقع پر اعزازی شمشیر بھی حاصل کی- کامیابی کے بعد جب چھٹیوں پر اسفندیار بننے کے بعد گھر آیا تو ایک بار پھر بچپن کی طرح والد کے کاندھے پر سر رکھ کر لیٹ گیا اور اپنے والد سے بچپن کی طرح اپنی اکیڈمی اپنی جاب کی
ساری باتیں شئير کیں- ڈاکٹر فیاض بخاری بھی بیٹے کو کاندھے پر لٹا کر اپنی عمر کی صعوبتوں اور تھکن کو فراموش کر بیٹھے- ایسے ہی میں اسفند یار نے ان سے اپنی اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کے وزیرستان کے دستوں کا حصہ بننا چاہتے ہیں تاکہ اپنی پاک سر زمین کو ان کے ناپاک ارادوں سے پاک کر سکیں- 18 ستمبر 2015 کی ایک رات بزدل دشمن نے بڈھ بیر ائیر بیس کو نشانہ بنایا ان کا ارادہ تھا کہ اس راستے سے وہ رہائشی آبادیوں میں داخل ہو جائيں گے اور پاک فوج کے جوانوں کے خاندانوں تک پہنچ کر ان کو یرغمال بنا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر سکیں گے-
مگر وہ فراموش کر بیٹھے تھے کہ ان کے ان ارادوں کے سامنے پاک فوج کے جوان سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں ۔ کیپٹن اسفند یار جناح ونگ 48 کے ریپڈ رسپانس فورس کا حصہ تھے جنہیں حملے کی اطلاع ملتے ہی فوری طور پر بڈھ بیر ائیر بیس پہنچنے کا حکم
ملا اور وہاں جا کر کیپٹن اسفند یار نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس بہادری سے ان بزدلوں کا مقابلہ کیا کہ وہ کیمپ میں پچاس میٹر تک بھی اندر داخل نہ ہو سکے اور ان سب کو جہنم واصل کر دیا گیا مگر ان مقابلے میں کیپٹن اسفندیار بھی جان کی بازی ہار گئے- شہادت سے دو ہفتے قبل ہی ان کے والد نے ان کا رشتہ طے کیا تھا اور اپنے بیٹے کے سہرے کے پھولوں کی تیاری کر رہے تھے کہ شہادت کے بعد یہی پھول ان کو اس کی قبر پر ڈالنے پڑے- انتہائی ہمت اور حوصلے سے بیٹے کی شہادت کے دکھ کو برداشت کرنے والا باپ ایک مثال بن گیا- مگر جوان بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارنا آسان کام نہیں ہے اس کے لیے بہت دل و جگر کی ضرورت ہوتی ہے یہ دکھ انسان کو وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتے ہیں ایسا ہی ایک باپ اب بھی جب تھک جاتا ہے تو اپنے شہید بیٹے کی قبر کے پاس جا کر لیٹ جاتا ہے اور اپنی تھکن بانٹ لیتا ہے –