لاہور (ویب ڈیسک) سونے والوں کو جگایا جا سکتا ہے‘جاگنے والوں کو نہیں۔اپوزیشن یا حکومت‘ اکثر لیڈروں کا عالم یہ ہے کہ سوچتے کم بولتے بہت ہیں۔ ان لوگوں کا انجام کیا ہو گا؟بانیان پاکستان کے بعد تاریخ پر ایک نگاہ کافی ہے کہ کب کب ،کون کون ،کس طرح رسوا ہوا۔ نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔کس طرح دلدل میں اترا‘ کیسے تماشا بنا‘چراغ سب کے بجھے‘ ہوا کسی کی نہیں۔ شہباز فرمایا کرتے! دو سال میں‘ ایک سال میں‘ چھ ماہ میں‘ بجلی کا نظام درست نہ کر دوں تو میرا نام بدل دینا۔ لاہور‘ لاڑکانہ اور کراچی کی سڑکوں پر زرداری کو اگر نہ گھسیٹوں تو میں شہباز شریف نہیں۔
اورنج لائن ٹرین کے نام پر لوہے اور سیمنٹ کا ایک ہمالہ چھوڑ کر وہ چلے گئے۔ سر پکڑے نئی حکومت بیٹھی ہے چلائیں تو بارہ ارب روپے سالانہ زر اعانت‘ پڑی رہے تو دو تین سو ارب برباد۔ زرداری صاحب سے بعد میں وہ معافی مانگتے رہے‘ شرمندگی کی ہر چند ایک رمق تک نہ تھی‘ کس مٹی کے بنے ہیں؟ روسٹرم پر مکے مار مار کر اعلان کیا کرتے‘ ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سیاست چھوڑ دوں۔ لوٹ مار ثابت ہو چکی‘ خاندان کے ایک ایک پاکباز کی۔اربوں روپے ایک سے دوسرے‘ دوسرے سے تیسرے‘ تیسرے سے چوتھے کھاتے میں منتقل ہوتے رہے۔ اب قوم کی گردن پر مسلط رہنے کا جواز؟ جاپانی شرفاء اس بات پر اپنی جان دے دیا کرتے ہیں الٹا یہ اپنے کارنامے گنواتے ہیں ۔راتوں کی تاریکی میں ادھر وردی پوشوں سے لجاجت سے پر سرگوشیاں‘ دن کے اجالے میں حریف کو للکار۔ جواب میں زبان حال سے کپتان یہ کہتا ہے: میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں ہیں سبھی تہذیب کے اوزار‘ تو چھلنی میں چھاج 1990ء کی دہائی میں ایسا ہی طوفان بدتمیزی تھا۔ پورا عشرہ ہی ضائع ہو گیا۔آج پھر ملک تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے‘ عرب ناراض‘ امریکہ ناخوش‘ حلیف ممالک حیران‘ شر پہ تلا ہوا بھارت۔ کشمیر میں قتل عام۔ عالم عرب میں اسرائیل کی یلغار۔ مجال ہے کہ زرداری یا شریف خانوادے کو رتی برابر پروا ہو‘ ڈھنگ کا ایک بیان تک نہیں۔فکر ہے تو سمندر پار کے دوستوں کی‘ آقائوں کی‘ جائیدادوں کی‘ مال و دولت کی۔ اور خان صاحب کو بھی کیا فکر۔
اعلان یہ فرمایا تھا کہ کشمیر کے وہ سفیر ہیں۔ ظلم کے مناظر سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے اس سفیر نے کیا کیا؟ وزارت خارجہ اور سفارت کاروں نے کیا کیا؟ خود اسٹیبلشمنٹ نے کیا کیا؟ امید بھری نظروں سے ادھر ادھر سب جھانکتے ہیں کہ کشکول میں تھوڑی سی سرپرستی کوئی ڈال دے‘چھتری سے سایہ کر دے۔ رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا قوم ہے کہ گہری نیند سوئی پڑی۔میڈیا ہے کہ ہر شام بے دریغ جھوٹ بولنے والوں کی میزبانی فرماتا ہے۔ زندہ قوموں ہی کو زندہ لیڈر ملتے ہیں۔‘تقدیر کا ماتم کرنے والوں کو نہیں۔سونے والوں کو جگایا جا سکتا ہے‘جاگنے والوں کو نہیں۔اپوزیشن یا حکومت‘ اکثر لیڈروں کا عالم یہ ہے کہ سوچتے کم بولتے بہت ہیں۔