Saturday July 27, 2024

راؤ انوار کو اب تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟راؤ انوار کے پاس ایسے کون سے راز ہیں جن کے سامنے آنے سے کئی سیاسی پارٹیاں صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہیں؟ سینئر کالم نگار کا تجزیہ

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف کالم نگار ڈاکٹر لال خا ن نے اپنے کالم میں نقیب اللہ محسود کے قتل اور راؤ انوار کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا کہ نقیب اللہ محسود جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کیا گیا کوئی پہلا معصوم نہیں تھا، نہ ہی اس استحصالی اور وحشیانہ نظام میں آخری ہو گا‘ لیکن نقیب اللہ کا وحشیانہ قتل‘ ریاست اور سیاست کے آقاؤں کو بھاری پڑ

گیا ہے۔ اس کے مبینہ قاتل راؤ انوار کو نہ صرف ایف آئی اے نے اسلام آباد ائیر پورٹ پر باہر جانے سے روک کر پھر اندر کہیں غائب ہو جانے دیا‘بلکہ اتنے دن گزر جانے کے باوجود وہ میڈیا سے رابطے بھی کر رہا ہے، اپنے بیانات بھی دے رہا ہے لیکن اس ملک کے تمام صوبوں کی پولیس اور ریاست کی بڑی مہارت اور شہرت رکھنے والی ایجنسیاں اس کو گرفتار کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ یہ ریاست ایک ایسے قاتل کو گرفتار نہیں کر پا رہی ہے جس کی گرفتاری کے لئے خود حکمران بھی شور مچانے کا ناٹک کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں‘ اور میڈیا کا واویلا بھی جاری ہے۔ نظام عدل بھی یہاں بے بسی کا تماشا محسوس ہوتا ہے۔ گرفتاری کے اہداف کے دن بڑھانے اور پولیس کو احکامات دینے کے علاوہ کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا سے لے کر سیاستدانوں تک سب ان شخصیات کو بے نقاب کرنے سے گریزاں ہیں‘ جو راؤ انوار سے یہ وارداتیں کرواتی رہی ہیں۔ جائیدادوں کے یہ دولت مند بیوپاری اتنے طاقتور ہیں کہ اس معاشرے میں کسی کا بھی منہ بند کروا سکتے ہیں۔ اگر وہ خاموش نہ ہو تو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے۔ معروف کالم نگار

نے اپنے کالم میں مزید لکھا کہ راؤ انوار والا یہ تمام تر قصہ کسی مافیا فلم سے کم ہولناک نہیں ہے۔ میرے خیال میں وہ اسی لئے ابھی تک ہاتھ نہیں آیا ہے کہ اس کے پاس بڑے بڑوں کے مکروہ جرائم کے ایسے ثبوت ہیں جو اگر کھلے تو بات بڑی دور تک جائے گی۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ راؤ انوار گرفتاری پیش کر دیتا اور پھر جیسا کہ اس ملک میں ہمیشہ ہوتا آیا ہےکہ

کورٹ کچہریوں کی تاریخوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں اس کے جرائم گم ہو جاتے اور معاملہ ٹھنڈا ہوتے ہی وہ کسی دور دراز جزیرے پر باقی عمر عیاشی کرتا‘ لیکن اہل اقتدار میں پھوٹ اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ شاید ایک دھڑا دوسرے کو نہیں بخشے گا۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ خود راؤ انوار کو ہی ٹھکانے لگا کر راستے سے ہٹا دیا جائے۔ لیکن ایسا بھی ہو سکتا

ہے کہ اُس نے تمام تر بیانات اور ثبوت کہیں محفوظ کر دئیے ہوں جو اس کے مرنے کی صورت میں منظر عام پر آ جائیں اور اسے مروانے والےاور بڑی مصیبت میں پھنس جائیں، کئی موروثی سیاستیں فنا ہو جائیں اور کئی پارٹیاں بکھر کر ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے ہی مٹ جائیں۔ میری نظر میں میڈیا کا ایک حصہ تو اِس ایشو کو کئی دوسرے ایشوز کی طرح

اچھال کر پھر غائب کرنے کے چکر میں تھا۔ لیکن حکمرانوں کے لئے جو اصل مصیبت کھڑی ہو گئی‘ وہ وزیرستان کے قبائل اور دوسرے علاقوں کے پشتوناور غیر پشتون مظلوموں کا اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور دھرنا ہے۔ پہلے پہل اِس کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا‘ لیکن پھر مجبوراً کوریج دینا پڑی۔ شاید ا س دھرنے کو منظم اور متحرک کرنے والے

ایسے کارکنان ہیں جو اِن مقتدر قوتوں کے کنٹرول میں نہیں ہیں اور نیچے سے عام لوگوں کا غم و غصہ اتنا شدید ہے کہ ماضی کے طرح دھرنے بٹھانا اور اٹھانا مشکل ہو گیا ہے۔

FOLLOW US