مئی تک ہر صورت پاکستانی سٹنٹ چاہئیے،چیف جسٹس ثاقب نثار آپ کے ہسپتال میں ایک جج کی بیٹی کی معمولی سی سرجری 64لاکھ میں ہوئی،چیف جسٹس کا شفاء ہسپتال کے شعبہ امراض قلب سے استفسار غیر معیاری سٹنٹ کی فراہمی پر از خود نوٹس کیس کی سماعت اسلام آباد,چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے دل کے
مریضوں کو غیر معیاری سٹنٹ کی فراہمی پر لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔جس میں ڈاکٹر ثممر مبارک مند کو روسٹرم پر بلایا ۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے سٹنٹ تیار کرنے کی زمہ داری اٹھائی تھی۔جس پر ڈاکٹر شمر مبارک نے بتایا بطور چئیرمین نیسکام 2004میں جرمنی سے مشین امپورٹ کی۔ سالانہ دس ہزار سٹنٹ تیار کئے جانے تھے۔37ملین کی لاگت سے منصوبہ شروع ہوا تھا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اپنی کاردگردگی سے تحریری طور پر آگاہ کریں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 3ملین روپے کا آڈٹ نہیں ہوا۔ڈاکٹر ثمر مبارک نے کہا کہ تمام ٹیکنالوجی نسٹ کو منتقل کر دی گئی تھی۔نسٹ حکام نے بتایا کہ 30ملین کی تو صرف مشین ملی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ مئی تک ہر صورت پاکستانی سٹنٹ تیار چاہئیے۔ خود اپنے طور پر سٹنٹ چیک کریں گے۔جس نے کام نہیں کرنا وہ ملک چھوڑ کر چلا جائے۔عدالت میں اسلام آباد کے نجی ہسپتال شفاء کے شعبہ امراض قلب کے سربراہ بھی پیش ہوئے۔اور بتایا کہ پنجاب کے ہسپتالوں میں جس قیمت پر اسٹنٹ فراہم کیے جا رہا ہے ہمیں مارکیٹ سے دوگنا قیمت پر ملتا ہے۔اگر عدالت کوئی ایسا
طریقہ کار بنانے کے لئے کہے جس سے ہمیں بھی اتنی ہی قیمت پر سٹنٹ ملے تو مریضوں کا بھلاہو گا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو سٹنٹ ڈالنے کے کل اخراجات پر کمی لانا ہو گی۔آپ کا ہسپتال بہت زیادہ پیسے لیتا ہے۔ہمارے ایک جج صاحب کی بچی کی معمولی قسم کی سرجری ہوئی آپ وک معلوم ہے اس پر کتنا خرچہ آیا جس پر ڈاکٹر نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم ہسپتال انتظامیہ جانتی ہو گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے چیف ایگزیکٹو کو بلائیں،سارا ریکارڈ اور دستاویزات بھی لائیں۔آپ کے ہسپتال نے اس معمولی سے آپریشن کے 64لاکھ وصول کئے۔چیگ جسٹس نے کہا کہ ہم نجی شعبے کے میڈیکل کالجز کو خبردار کرتے ہیں کہ یہ ایسا کاروبار نہیں جس سے آپ پیسہ کمانے پر نظر رکھتے ہوں۔جو بھی ہسپتال چلا گیا زبح کر کے واپس بھیج دو۔