Saturday May 18, 2024

کالاباغ ڈیم کی تعمیر، سروے مکمل ، کروڑوں روپے کا سامان سائیٹ پر پہنچا دیا گیا ، بجلی دو روپے فی یونٹ، 180ارب کی سالانہ بچت

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں پانی کی قلت ایک ایسا مسئلہ ہے جو سر اٹھائے کھڑا ہے اور عوامی حلقوں میں اس بارے میں شدید خدشات اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اب جبکہ بھارت بھی پاکستانی پانیوں پر کنٹرول حاصل رہا ہے اور خدشہ ہے کہ پاکستانی زمین کو بنجر بنانے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا ہے تو سوشل میڈیا پر کالا باغ ڈیم بنائے جانے کی

بازگشت پھر سے سنائی جانے لگی ہے ۔ تاہم اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ماضی میں ڈیم کوبنانے اور کروڑوں روپے کا سامنا وہاں تک پہنچائے جانے کی کوششوں کو کس طرح دھچکا لگا۔ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یوسی ماڑی انڈس کے علاقہ پیر پہائی اور ڈھوک بھرتال کے درمیان کالاباغ ڈیم کا منصوبہ 1940میں بنایا گیا تھا،پہلا سروے 1952میں ہوا جس کے بعد 1969 میں اس کی فزیبلٹی رپورٹ پر کام شروع کر دیا گیا، 1987 میں اس کی فزیبلٹی مکمل ہوگئی اور ٹینڈر ہونا باقی تھے۔ 1987میں کالا باغ ڈیم کی کالونیاں ، لیبارٹریز اور ٹنل مکمل ہو چکے تھے ، کالا باغ ڈیم کی پہلے سروے رپورٹ میں اس کی اونچائی 1000فٹ تھی جس کے بعد اس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کی حکومت اور عوام نے موقف اختیار کیا کہ اس کی اونچائی سے نوشہرہ کالا باغ ڈیم سے 35کلو میٹر بلند تھا ، جہاں پیر پہائی کے قریب ڈیم کا پانی ذخیرہ ہوگا وہاں ماہرین نے مکمل سروے کیا ، وہاں ان پہاڑوں میں کوئی نمک نہیں۔ مٹی ہے وہ بھی ٹھوس اور مضبوط اور قدرتی طور پر وہاں کی پہاڑی جھیل کا نمونہ پیش کرتی ہے ۔کالا باغ ڈیم کا مکمل کام 1983میں شروع ہو اجبکہ اس کو 1956میں شروع ہوجانا چاہیے تھا ، بد قسمتی سے 1989سے ڈیم سائٹ پر کام بند کر دیا گیا ، کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہونے پر حکومت پاکستان کو اربو ں روپے کا خسارہ ہو ا، دوسری طرف پاکستان کو اس ڈیم سے حاصل ہونے والی سستی بجلی بھی نہ مل سکی اور عوام لوڈشیڈنگ کے عذاب سے دو چار ہیں ، آج یہ ڈیم ہوتا تو لوڈشیڈنگ نہ ہوتی اور عوام کو 12روپے ایونٹ ادا کرنے کے بجائے صرف دو روپے یونٹ کے حساب سے بجلی ملتی ، جہاں یہ ڈیم 3600میگاواٹ بجلی پیدا کرتا وہیں 180ارب روپے کی سالانہ بچت ہوتی اور 6.1ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوتی

FOLLOW US