اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان کے انٹرویو نے امریکی سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی۔صحافی منظور سلہری اس حوالے سے اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ وزیراعظم کے انٹرویو نے یہاں کے سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے،ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے امریکی میڈیا کو انٹرویوز کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید اور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کی امریکی حکام سے باضابطہ ملاقاتوں سے پہلے وزیراعظم کا انٹرویو بہت اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ واشنگٹن میں دونوں ممالک کے اہم عہدیداران کی ہونے والی ملاقاتوں میں اس انٹرویو کی بازگشت ضرور سنائی دے گی،پاکستانی سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان مختلف ذرائع استعمال کرکے امریکا کو باور کروا رہا ہے کہ پاکستان نئی سمت اختیار کر کے اپنی نئی فارن پالیسی پر گامزن ہے۔
نوازشریف فروری یا مارچ میں وطن واپس آئیں گے، لندن میں موجود صحافی کا دعویٰ
امریکی حکام وزیراعظم کے حالیہ انٹرویوز کا بغو جائزہ لے رہی ہے۔کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور ملٹری قیادت کے ایک پیجپر ہونے سے دنیا میں پاکستان کا وقار بہت بلند ہوا۔
آپ دیکھیں کہ صدر جوبائیڈن وزیراعظم کو واشنگٹن آنے کی باضبطہ دعوت دیں گے کیونکہ پاکستان کو پتہ ہے اس خطے میں پائیدار امن کے لیے اس کی اہمیت کتنی اہم ہے جس کو امریکا سمیت دنیا کی کوئی طاقت جھٹلا نہیں سکتی۔امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے وزیراعظم کے جرات مندانہ موقف کی حمایت کرتے ہوئے اسے پاکستان کی بڑی فتح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسے سے پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ خیال رہے کہ امریکی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ امریکا نے صورتحال بہت خراب کردی ہے۔وزیر اعظم نے امریکا کو افغانستان میں فوجی حل تلاش کرنے کی کوششوں پر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ایسا کبھی تھا ہی نہیں۔انہوںنے کہاکہ مجھ جیسے لوگ جو کہتے رہے کہ فوجی حل ممکن نہیں، جو افغانستان کی تاریخ جانتے ہیں، ہمیں امریکا مخالف کہا گیا، مجھے طالبان خان کہا جاتا تھا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ جب امریکا کو یہ احساس ہوا کہ افغانستان میں کوئی فوجی حل نہیں ہے بدقسمتی سے امریکی اور شمالی اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن فورسز نیٹو، سودے بازی کی پوزیشن کھو چکے تھے۔انہوںنے کہاکہ امریکا کو بہت پہلے سیاسی تصفیے کا انتخاب کرنا چاہیے تھا جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب نیٹو فوجی موجود تھے۔انہوںنے کہاکہ ایک مرتبہ جب انہوں نے فوج کو بمشکل 10 ہزار کر دیا تھا اور پھر جب انہوں نے انخلا کی تاریخ بتادی تھی تو طالبان نے سوچا کہ وہ جیت گئے ہیں اور اس وجہ سے اب انہیں سیاسی حل کے لیے مجبور کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
جب انٹرویو لینے والے نے سوال کیا کہ کیا ان کا خیال ہے کہ طالبان کی بحالی افغانستان کے لیے ایک مثبت پیشرفت ہے تو وزیر اعظم عمران خان نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس کا واحد نتیجہ ایک سیاسی تصفیہ ہوگا جو جامع ہو۔انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے کہ طالبان اس حکومت کا حصہ ہوں گے۔ہمسایہ ملک افغانستان کی صورت حال کو وزیر اعظم نے بدترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ جہاں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے تو وہاں پر یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ پاکستان کے نقطہ نظر سے یہ بدترین صورت حال ہے کیونکہ تب ہمیں دو مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے جن میں سے ایک مہاجرین کا مسئلہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ پہلے ہی پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے اور ہمیں جو خدشہ لاحق ہے وہ یہ ہے کہ ایک طویل خانہ جنگی مزید مہاجرین کو لائے گی اور ہماری معاشی صورتحال ایسی نہیں ہے کہ ہم مزید آمد برداشت کرسکیں۔دوسرے مسئلے کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ سرحد پار سے ہونے والی ایک ممکنہ خانہ جنگی ’پاکستان میں داخل ہوسکتی ہے۔
بلدیاتی الیکشن میں شکست، عمران خان نے پی ٹی آئی کی تمام تنظیمیں اور پارلیمانی بورڈ تحلیل کر دیے