Wednesday May 8, 2024

” میں نے دیکھا کہ ذوالفقار بھٹو اور ان کی بیٹی بے نظیر جیل میں چارپائی پر بالکل ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور دونوں نے اپنے منہ ایک دوسرے کے”” جیل حکام نے ایسا کیا دیکھ لیا جس پر بے نظیر بھٹو شدید ناراض ہو گئیں، چونکا دینے والی رپورٹ

اسلام آبا د(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جیل میں گزاری گئی مدت او ر ان کے آخری ایام کے حوالے سے شائع ہونے والے ایک اقتباس میں بتایا گیا ہے کہ ان کی اپنی اہلیہ اور اپنی بیٹی سے ملاقاتوں کا معاملہ بھی بڑا معنی خیز اور عجیب و غریب ہوا کرتا تھا ۔ ان ملاقاتوں میں ہونے والی گفتگو اور راز دار ی کے حوالے سے جیل حکام نے بھی

مصنفین کو کچھ تفصیلات سے آگاہ کیا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہسابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکی راولپنڈی جیل میں اسیری کے وقت17مئی1978ء سے 3 اپریل1979ء کے دوران بیگم نصرت بھٹو 44 بار ان کے سیل میں ملاقات کیلئے آئیں۔ ان ملاقاتوں میں انہوں نے ایک سو دس گھنٹے اور بیس منٹ کا مجموعی وقت اپنے شوہر کے ساتھ ان کے سیل میں گزارا۔بیگم نصرت بھٹو کی طرح محترمہ بے نظیر بھٹوبھی کراچی سے ہر ہفتے ایک پولیس افسر کی معیت میں پی آئی اے کے ذریعے راولپنڈی لائی جاتی تھیں۔ان کی ملاقات کا طور طریقہ تقریباً بیگم بھٹو جیسا ہی ہوتا تھا۔ باپ بیٹی کی ملاقات کے دوران بہت کچھ تبادلۂ خیال خاموش اشاروں کی زبان میں کیا جاتا جو زیادہ تر سرگوشیوں کے ذریعے یا پھر لکھ کر سمجھایا یا منتقل کیا جاتا تھا۔ ایسی ملاقاتوں کے دوران لوگوں کے کان کھڑے ہوتے رہتے تھے لیکن ریکارڈ صرف وہی ہوتا تھا جوبھٹو خاندان چاہتا تھا کیونکہ ان کی ملاقات کے دوران کافی دیر کیلئے کاغذ کے اوراق الٹنے پلٹنے کی آواز سنائی دیتی یا بالکل خاموشی چھائی رہتی۔ اگر بھٹو صاحب حکام کو کچھ بتانا چاہتے یا انہیں گمراہ کرنا چاہتے توپھر اونچی آواز سے بات چیت شروع ہو جاتی ورنہ پھر اچانک ایسی خاموشی جیسے بیٹھنے والے سیل سے باہر نکل گئے ہوں۔شروع شروع کی دوسری یا تیسری ملاقات کے دوران اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ عمر دراز نے بھٹو صاحب کے سیل کے اندر جھانکا تا کہ بتایا جائے کہ جناب وقت بہت ہو گیا ہے اور ملاقات ختم کریں۔ اس نے دیکھا کہ باپ بیٹی ایک ہی چار پائی پر دراز ہیں اور ان کے چہرے نزدیک ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ فوراً پیچھے ہٹ گئے۔ ملاقات کے بعد محترمہ بے نظیر سیدھی سپرنٹنڈنٹ جیل کے دفتر میں آئیں اور انہوں نے نا خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کم ازکم جیل حکام کو اتنی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ ہماری ملاقات کے دوران خلل اندازی نہ ہو ۔ان کے چلے جانے کے بعد اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے پوری کہانی سنائی کہ محترمہ بے نظیر کی ناراضگی کی اصل وجہ کیا تھی۔ یہ سن کر ہر ایک نے بڑی حیرانگی کا اظہار کیا۔ میں نے ان کو سمجھایاکہ ایک بیٹی اپنے باپ سے کوئی اہم بات کرنے کےلئے انھیں سیل سے باہر تو نہیں لا سکتی ۔اور نہ ہی کانوں میں سرگوشیاں کرنے کا کوئی اور طریقہ موجود ہے۔

FOLLOW US