لاہور: سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو شریک ملزم ٹھہرایا جائے۔ واقعہ2007ء میں ہوا تو2013ء میں استغاثہ کیوں دیا گیا، فیصلے کو چیلنج کریں گے۔ انہوں نے خصوصی عدالت کے فیصلے کے ردعمل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ قانونی تقاضے پورے کیے بغیرعجلت میں فیصلہ سنایا گیا۔ سابق صدر پرویز مشرف کو شفاف ٹرائل اور موقع نہیں ملا۔ ملزم کی غیرموجودگی جب فیصلہ آئے تو کیا کرتے ہیں اس کا ہمیں بھی نہیں پتا تھا۔ یہ فیصلہ بھٹو کی پھانسی کے فیصلے سے بھی زیادہ برا ہے۔ اگر شفاف طریقے سے صفائی کا موقع دیا جاتا تو اس میں کوئی حرج نہیں تھا۔ فیصلے میں تمام ترقوانین کونظر انداز کیا گیا۔ شریک ملزمان کے خلاف بھی ٹرائل چلنا چاہیے تھا۔
عدالت میں درخواست دی تھی شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو شریک ملزم بنایا جائے۔ واقعہ2007ء میں ہوا تو2013ء میں استغاثہ کیوں دیا گیا۔ پرویزمشرف اڑھائی تین سال ملک میں رہے اس دوران استغاثہ کیوں نہیں بنا۔ فیصلہ استغاثہ کی منظوری کے بغیر دیا گیا جبکہ استغاثہ کی منظوری کابینہ کی بجائے وزیراعظم نے دی۔ ہم نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی اپنی پٹیشن دائر کی۔ عدالت سے بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست کی اورعدالت نے کمیشن کے ذریعے بیان ریکارڈ کرنے کی خود پیشکش کی تھی۔ دوسری درخواست میڈیکل بورڈ کی تشکیل کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن کی ٹیم لگانا کابینہ کا کام تھا۔ آج تک کسی شخص کی غیر موجودگی میں سزا نہیں دی گئی۔ 342 کا بیان ریکارڈ کیے بغیر فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ مجھے کبھی وکیل مانا جاتا رہا۔ آج نہیں مانا جا رہا۔ پرویز مشرف کی حالت تشویشناک ہے۔ 70 سال کی عمرمیں پرویز مشرف کا ٹرائل افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے کے خلاف 30 دنوں میں اپیل کرنا ہوتی ہے۔ ہم تفصیلی فیصلے کو دیکھیں گے، پھر مشاورت کے بعد اپیل میں جائیں گے۔ اس موقع پرسیکرٹری جنرل آل پاکستان مسلم لیگ مہرین ملک نے کہا کہ ہماری لیگل ٹیم موجود ہے ، لیگل ٹیم کے ساتھ مشاورت کے بعد فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔