Sunday December 22, 2024

قوم کے چالیس ارب پر ڈاکہ ڈالنے والا آج پی ٹی آئی کی پناہ میں ہے،یہ شخص کون ہے ؟ شہباز شریف نے پریس کانفرنس کے دوران سارا کچا چٹھا کھول دیا

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک ) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ ملک میں الزام تراشی ،ہر کسی کو رگیدنے اورجھوٹ بولنے کے خطرناک رحجان کی طرف لیجانا اورگویبلز کی اس تکنیک کو دہراناکہ’ اتنا جھوٹ بولو کہ وہ سچ ثابت ہوجائے ‘یہ خطرے کی گھنٹی ہے ،قوم کے نونہالوں اورنوجوانوں کو صحیح اورسچائی کے راستے سے ہٹا کر غلط بیانی اورجھوٹ بولنے کی طرف لگانا قوم کے ساتھ بڑی دشمنی ہے ،عمران نیازی نے دن رات جھوٹ بول کرقوم کا قیمتی وقت بربادکر کے بڑا ظلم اورزیادتی کی ہے ،وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں،الزامات لگاتے ہیں،دروغ گوئی

کرتے ہیں لیکن اس پر ذرا ندامت محسوس نہیں کرتے،کرکٹ کے کھلاڑی ہونے کے ناطے اگر وہ اس طرح کی غلط بیانی اور جھوٹ بولتے رہیں گے تو بال ٹمپرنگ کے حوالے سے الزامات پر لوگ قیاس آرائیاں کریں گے جو لمحہ فکریہ اورقومی وقار کے منافی ہے،قومی وقار اور عزت پر ہر چیزقربان ہے لیکن دن رات جھوٹ بول کر اسے خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، عمران نیازی نے مجھ پر فیصل سبحان جیسے دیومالائی کردار تخلیق کر کے مجھ پر ایک نیا الزام لگایا ہے ، ایک ٹی وی چینل نے بھی اس معاملے پر ہرزہ سرائی کی ،میں نے اس کا اسی دن نوٹس لیتے ہوئے واضح کیا کہ ’’Put up or shut up‘‘اور آج یہی بات میں عمران نیازی سے کہتا ہوں کہ ’’پٹ اپ یا شٹ اپ‘‘ ’’Put up or shut up‘‘)جس کا مطلب ہوتا ہے کہ’’ ثبوت لاؤ یا زبان کو لگام دو‘‘ )۔میں نے اس ٹی وی چینل کے خلاف برطانیہ میں مقدمہ کیا ہے اور وہاں ایک لا ء کمپنی کی خدمات بھی حاصل کی ہیں ۔ برطانیہ میں مقدمہ کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ مجھے اپنی عدالتوں پر اعتماد نہیں لیکن ہمارے ہاں ہتک عزت کے مقدمات کے فیصلے کرنے کا نظام سست روی کا شکارہے ۔ زندگیاں گزر جاتی ہیں لیکن ان مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے، اسی لئے میں نے اے آروائی کے خلاف برطانیہ میں قانونی چارہ جوئی کی ہے ۔ وزیر اعلی محمد شہباز شریف نے ماڈل ٹاؤن میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران نیازی ایک الزام لگاتے ہیں تو اس کا جواب دیتے ہیں اور نہ اسے دہراتے ہیں بلکہ ایک نیا الزام لگا دیتے ہیں ۔پہلا الزام انہوں نے لگایا کہ لاہور میٹروبس منصوبے پر 70 ارب روپے لاگت آئی ہے ۔ ہم نے اس الزام کی تردید کی اور اسے چیلنج کیا۔ ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ عمران نیازی پیدائشی جھوٹا ہے اس لئے ہم نے اسے قرینے سے جواب دیا۔ ہم نے کہا کہ میٹرو بس کے منصوبے پر 30 ارب روپے لاگت آئی ہے اور اس بات کی کسی بھی فورم سے تحقیق کروالیں لیکن عمران نیازی 70 ارب روپے کا راگ الاپتے رہے۔ میں نے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل سے رابطہ کیا اور ادارے کے بورڈ ممبران سے میٹنگ کی ۔ اس بورڈ کے ممبران میں سابق جج ناصرہ اقبال بھی شامل تھیں جن کے صاحبزادے آج بھی پی ٹی آئی میں موجود ہیں ۔ادارے میں عمران خان صاحب کو بھی بلایا گیا لیکن وہ نہیں آئے ۔ پھر ادارے نے تمام ریکارڈ چیک کر کے فیصلہ دیا کہ اس منصوبے پر 30 ارب روپے لاگت آئی ہے ۔ نیازی صاحب نے دوسرا الزام جاوید صادق نامی شخص کے حوالے سے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کاغذ لہراتے ہوئے لگایا کہ جاوید صادق میرا فرنٹ مین ہے اور مجھ پر 27 ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگایا۔ میں نے انہیں نوٹس بھجوایا جس کے جواب کا آج بھی انتظار ہے ۔ جاوید صادق ایک سابق فوجی ہے اور میرے ان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں ۔کسی کے ساتھ تعلقات ہونا کوئی جرم نہیں ۔ 27 ارب تو کیا اگر 27 دھیلے کی کرپشن ہو تو یہ جرم ہے ۔خان صاحب نے میرے اس نوٹس کا بھی جواب نہ دیا۔ پھر خان صاحب نے الزام لگایا کہ میں نے پانامہ کے کیس میں ان کی یلغارروکنے کے لئے انہیں 10 ارب روپے رشوت کی پیشکش کی ۔ میں نے انہیں پھر نوٹس بھجوایا اور ہتک عزت کا دعوی دائر کیا لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ ان مقدمات میں جتنی بھی پیشیاں ہوئیں ان میں نہ تو خان صاحب آئے اور نہ ہی ان کے وکیل بابر اعوان پیش ہوئے۔ بابر اعوان لوٹ مار اور کرپشن کا وہ کردار ہے جسے جج رحمت حسین جعفری نندی پور منصوبے میں کرپشن کا ذمہ دار ٹھہرا چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ الزام لگائیں اور اس کا جواب بھی نہ دیں اور عدالتیں بلائیں تو اس میں پیش نہ ہوں،اس طرح قوم کو قائد و اقبال کے افکار کے مطابق نہیں ڈھا لا جا سکتا۔ الزامات اور جھوٹ پر احساس ندامت بھی نہ ہو اور جب عدالتیں بلائیں تو پیش بھی نہ ہو ں۔ خدا را اس روش کو بدلیں اور قوم پر رحم کریں ۔ خان صاحب نے جھوٹ کا آخری وار سبحان نامی شخص کا کردار تراش کر کیا۔ میں نے پتوکی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عدالت عظمی کے چیف جسٹس سے درخواست کی تھی کہ معاملے کی تحقیقات کیلئے ایک فل بنچ بنا دیں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ آج میں ایک بار پھر عدالت عظمی کے چیف جسٹس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ خود فل بنچ بنائیں یا ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں فل بنچ بنا دیں ۔میں آج عدل کی زنجیر کو ایک بار پھر

ہلاتا ہوں کہ ایک فل بنچ بنا کر اس ایک جھوٹ کا نہیں بلکہ خان صاحب نے میری ذات پر جتنے الزامات لگائے ہیں سب کی تحقیقات کی جائیں۔ خدا نحواستہ اگر یہ بنچ میرے خلاف فیصلہ دے دے اور مجھ پر لگائے گئے الزامات درست ثابت ہو جائیں تو میں قوم سے معافی مانگ کر ہمیشہ کیلئے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لوں گالیکن اگر خان صاحب جھوٹ ثابت ہو جائے تو انہیں چاہیے کہ وہ کسی درگاہ میں بیٹھ کر تربیت حاصل کریں ۔انہیں جان لینا چاہیے جھوٹ اور یوٹرن کی بنیاد پر قوم کی رہنمائی نہیں کی جا سکتی ۔ انہوں نے کہا کہ 30 اکتوبر 2011 ء میں خان صاحب نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں قوم سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔اس بات کو دو سال گزرے تھے کہ خان صاحب نے سات قسمیں کھائیں جن میں پہلی قسم یہ تھی کہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا لیکن وہ مسلسل قوم سے جھوٹ بول رہے ہیں ۔ میں نے ان کے پانچ جھوٹوں اور الزامات کی لڑی گنوا دی ہے ۔ اس کا فیصلہ ما سوائے ججز کے کوئی اور نہیں کر سکتا ۔ میڈیا ٹی وی شوز کے ذریعے اپنی دوکان تو چمکا سکتا ہے لیکن ان الزامات کا فیصلہ نہیں کرسکتا ۔ کیا عوام نے انہیں اس بات کیلئے ووٹ دیا تھا کہ وہ دن رات جھوٹ بولیں ۔ انہوں نے جتنا وقت جھوٹ بولنے میں لگایا ہے اگر وہ اس سے آدھا وقت کے پی کے میں ترقیاتی منصوبوں پر صرف کرتے تو آج کے پی کے کی یہ حالت نہ ہو تی۔ ان کی اس روش اور رویے سے پتہ چلتا ہے کہ شائد ان کی ترجیحات ہی کچھ اور تھیں ۔2013ء کے انتخابات میں خان صاحب دعوے کرتے تھے کہ وہ کے پی کے کو ترقی کے لحاظ سے رول ماڈ ل بنا دیں گے اور کے پی کے میں بجلی پیدا کریں جو پاکستان کو بھی مہیا کی جائے گی۔ کے پی کے میں پانی سے ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا ہونے کی گنجائش ہونے کے باوجود آج وہ کے پی کے میں 74 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا دعوی کر رہے ہیں ۔ ان کے صوبے میں 80 میگا واٹ ایک بجلی کا کارخانہ بند پڑا تھا وہ پانچ سال گزرنے کے باوجود بند ہے ۔ وہ اس کارخانے کی مرمت نہ کرا سکے اور 74 میگا واٹ بجلی بنانے کا دعوی جھوٹ کا پلندہ ہے ۔ صوبے کے دور دراز علاقوں میں 74 میگا واٹ بجلی کا کارخانہ لگانے کا دعوی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت ہم سے یہ بجلی خرید نہیں رہی ۔حالانکہ ان علاقوں میں ٹرانسمیشن لائنیں ہی موجود نہیں ہیں جہاں وہ یہ کارخانہ لگانے کا دعوی کر رہے ہیں ۔یہ ان کا قوم سے سنگین مذاق اور اس کی معاشی حالت سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے مل کر اپنے وسائل سے پانچ ہزار میگا واٹ بجلی کے کارخانے لگائے ہیں اور ایک منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بجلی کے منصوبے جس شفافیت اور برق رفتاری سے مکمل کئے گئے ہیں ان کی ملک کی 70 سالہ تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء کے انتخابات سے قبل 18 ویں آئینی ترمیم موجود نہ تھی ۔بجلی پیدا کرنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی اس لئے مجھے گزشتہ دور میں احتجاج پر مجبور ہونا پڑا۔اب 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بجلی کے منصوبے لگانے کا اختیار ملا ہے تو ہم نے اپنے وسائل سے بجلی کے کارخانے لگائے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ منصوبے نہایت شفاف طریقے سے لگائے ہیں جس کی ہمیں مختلف طریقوں سے سزا دی جا رہی ہے ۔ نیب ایک بار نہیں قانون کے مطابق 100 بار تحقیق کرے لیکن قانون کے نام پر انتقام ٹھیک نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملتان میٹرو بس کے حوالے سے بھی نیازی صاحب نے مجھ پر الزام تراشی کی ۔ان کی اصلیت ظاہر کرنے اور جھوٹا ثابت کرنے کے لئے یہی حقیقت کافی ہے کہ ملتان میٹرو کے حوالے سے الزام تراشی سے لیکر آج تک مذکورہ چینی کمیشن کی کوئی تفتیشی ٹیم سرے سے پاکستان آئی ہی نہیں ۔چینی سیکورٹی کمیشن اور پاکستان کی سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن نے 30 اگست 2017 ء کو اپنی جاری ہونے والی پریس ریلیز میں بھی عمران نیازی کے الزام کو غلط ثابت کیا ہے ۔ اس پریس ریلیز میں چینی سیکورٹی کمیشن نے واضح طور پر کہا ہے کہ سی ایس آر سی نے اس معاملے میں کسی سرکاری یا غیر سرکاری پاکستانی شہری سے کوئی تفتیش نہیں کی ۔ پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا کہ یابیٹ نامی چینی کمپنی کا ملتان میٹرو سے کوئی تعلق نہیں ۔نیازی صاحب کہتے ہیں کہ سبحان نامی شخص نے چینی وفد کو انٹرویو دیا ۔ حالانکہ پریس ریلیز کے مطابق چین کا کوئی وفد پاکستان نہیں آیا اور نہ ہی کسی شخص کا انٹرویو کیا گیا۔پاکستان کی ایس ای سی پی نے مزید کہا کہ کیپٹل انجینئرنگ اینڈ کنسٹرکشن کمپنی نام کا کوئی ادارہ ہمارے پاس رجسٹرڈ نہیں ہے اور جس گمنام شخص کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کی تحقیق نہیں ہو سکتی۔ وہ آدمی موجود ہی نہیں تحقیق کیسی۔ عمران نیازی کے دعوؤں کا اس سے بڑا کھوکھلا پن اور کیا ہو سکتا ہے ۔ میں نوجوانوں سے ملتمس ہوں کہ وہ بے شک مجھے مسترد کر دیں مگر ایک ایسا شخص جس نے کرکٹ کی دنیا میں ورلڈ کپ جیتا ہواور وہ دن رات جھوٹ بولے ، دروغ گوئی کرے اور غلط بیانی کرے اس کا بھی احتساب ضرور کریں ۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی ملتان میٹرو کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کی تردید کی اورچینی کمپنی کو 6 لاکھ ین جرمانہ کیا اور اسے بلیک لسٹ بھی کر دیا۔ کمپنی کے سی ای او مسٹر لو کو بھی 3 لاکھ ین جرمانہ کیا گیا۔اس یابیٹ نامی چینی کمپنی نے کھلے عام معافی بھی مانگی ۔ میں خان صاحب سے پوچھتا ہوں اب کونسا انہیں ثبوت چاہیے جو میں پیش کروں۔ ایک اللہ تعالی کی عدالت ہے جہاں سزا اور جزا کا نظام موجود ہے وہاں فیصلہ ہو گا اور ایک عوام کی عدالت ہے وہ بھی فیصلہ کرے گی ۔ عدالت عظمی اور عدالت عالیہ بھی ایک فورم ہے ۔ میں اس فور م کا دروازہ ایک بار پھر کھٹکھٹا رہا ہوں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو ۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن نیازی صاحب کا مسئلہ نہیں اور اگر کرپشن ان کا مسئلہ ہوتا تو وہ نندی پور کرپشن کے میگا سکینڈل پر خاموش نہ رہتے۔ اس سکینڈل پر عدالت عظمی کے جج بابر اعوان کو کرپشن کا ذمہ دار ٹھہرا چکے ہیں ۔ کیا کبھی انہوں نے بابر اعوان کا نام لیا ؟ وہ کرپشن کے خلاف بات کرتے ہیں لیکن کرپٹ بابر اعوان ان کی گود میں بیٹھے ہیں ۔یہ قوم کے ساتھ سنگین مذاق ہے ۔ مشرف جسے خان صاحب نجات دہندہ کہتے تھے ان کے دور میں چنیوٹ کے معدنی ذخائر پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ ہم نے اس کے خلاف عدالتوں میں جنگ جیتی اور قوم کے اربوں روپے بچائے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں چنیوٹ میں 400 ارب روپے کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں ، دوسرے مرحلے پر کام شروع ہو چکا ہے ۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج نے نیب کو ہدایت کی تھی کہ اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن افسوس کہ نیب نے اسے کلین چٹ دے دی۔ انہوں نے کہا کہ مشرف کے سیکرٹری کے بھائی کی جعلی کمپنی کو چنیوٹ کے ذخائر کی تلاش کا ٹھیکہ دیا گیا ۔ ہم اگر اس کے خلاف بروقت کارروائی نہ کرتے تو قوم کا اربوں روپے کا خزانہ لٹ چکا ہو تا۔ کیا نیازی صاحب نے اس کے بارے میں بھی کبھی آواز اٹھائی ۔ای او بی آئی میں 40 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا گیا جس کے ذمہ دار ظفر گوندل تھے جو سابق وفاقی وزیر نذر گوندل کے بھائی تھے ۔قوم کے اربوں روپے پر ڈاکہ ڈالنے والے یہ لوگ آج پی ٹی آئی کی پناہ میں ہیں ۔ ظفر گوندل وہ شخص ہے جس نے اس کرپشن پر جیل بھی کاٹی ہے ۔ اس خائن کو خان صاحب نے اپنی گود میں بٹھا رکھا ہے ۔ این آئی سی ایل ایک اور کرپشن کا سکینڈل ہے جس میں غریب قوم کی اربوں روپے کی زمینیں لٹ گئیں ۔ یہ زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ خریدی گئیں ۔ خان صاحب نے اس سکینڈل کے بارے میں بھی کبھی کوئی لفظ نہیں کہا۔ خان صاحب جن کی کرپشن کے بارے میں آخری حدوں تک جاتے تھے اور انہیں چور ، ڈاکو کہہ کر مخاطب کرتے تھے انہیں کے ساتھ مل کر لاہور میں جلسہ کیا۔زرداری صاحب نے 60 ملین ڈالر غریب قوم کے لوٹ کر سوئس بنکوں میں جمع کروائے۔ پوری قوم جانتی ہے کہ دو وزرائے اعظم کو اس معاملے میں قربانی کا بکرا بنایا گیا۔ سوئس بنک نے ان پیسوں کی واپسی کیلئے خط لکھنے کا کہا عدالت عظمی کے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو خط لکھنے کا کہا لیکن انہوں نے خط نہ لکھا اور توہین عدالت کے مرتکب ہونے پر وزارت عظمی سے فارغ ہوئے۔ دوسرے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف تھے وہ بھی اپنی لیڈر کی کرپشن بچانے کے لئے ان سے وفاداری نبھائی اور توہین عدالت کی۔ انہوں نے کہا کہ غریب قوم کے 60 ملین ڈالر لوٹ کر سوئس بنکوں میں رکھنا اس قوم کے ساتھ بڑی زیادتی ہے اور پاکستان کے عوام کے ساتھ کھلی دشمنی ہے ۔اگر قوم کے یہ اربوں روپے لوٹے نہ جاتے تو کوئی ہمیں بھکاری نہ کہتا ۔ ہمیں ڈکٹیشن لینے پر مجبور نہ ہونا پڑتا اور ہمیں اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ معاشی طور پر آزاد قوم ہی سیاسی طور پر آزاد ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو نشاندہی پر قوم سے معافی مانگ لوں گا لیکن دن رات جھوٹ بول کر قوم کا وقت ضائع کرنے سے غربت ، مایوسیوں کے سوا ہمارے دامن میں کچھ نہیں ہو گا۔ قوم قربانیاں دے رہی ہے اور ان کی قربانی پکار پکار کر اپنا حق مانگ رہی ہے ۔ خدا را ، خدا کا خوف کریں اور ملک و قوم پر رحم کریں ۔ انہوں نے کہا کہ نیازی صاحب آپ نے کے پی کے کا بیڑا غرق کر دیا ہے ۔ پشاور کو میٹرو بس کے نام پر اکھاڑ کر رکھ دیا ہے ۔آپ پشاور میں جو میٹروبس کا منصوبہ بنانے جا رہے ہیں اس میں 85 فیصد فنڈ ایشیائی ترقیاتی بنک دے رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ خان صاحب کو جھوٹ بولنے کا نشہ ہے جب تک وہ جھوٹ بول نہ لیں ان کا نشہ نہیں اترتا۔ خان صاحب یاد رکھیں آئندہ انتخابات میں قوم آپ کے جھوٹ پر آپ کا احتساب کریں گے ۔ وہ دعوی کرتے تھے کہ ہم میٹرو پر وسائل لگانے کی بجائے تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنائیں گے ۔ انہوں نے نہ تو کوئی تعلیمی ادارہ اور نہ ہی کوئی ہسپتال بنایا۔ پنجاب حکومت اور عوام نے اپنے وسائل سے سوات میں سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال بنایا تھا ۔ کے پی کے کی حکومت اس ہسپتال کو چلانے میں بھی قاصر ہے اور وہ کہہ رہی ہے کہ نان سیلری بجٹ کے لئے پنجاب حکومت سے رابطہ کیا جائے۔پنجاب کی حکومت اور عوام نے خوش دلی سے عطیہ دے کر اس ہسپتال کا تحفہ آپ کو دیا اور آپ اسے بھی چلانے میں ناکام ہیں ۔ کے پی کے میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوے کرنے کی بجائے عملی اقدامات کئے جاتے تو اچھا ہوتا۔ وزیر اعلی نے کہا کہ عدالت عظمی کا دروازہ ایک بار پھر کھٹکھٹایا ہے کہ وہ عمران نیازی کے لگائے گئے مجھ پر تمام الزامات کی تحقیقات کیلئے فل بنچ بنادیں اور اس بنچ میں پیش ہو کر اپنی صفائی دینا میرے لئے باعث اعزاز ہو گا ۔ اگر میں جھوٹے الزامات پر نیب میں پیش ہو سکتا ہوں تو عدالت عظمی کے بنچ کے سامنے پیش ہونے میں بھی مجھے کوئی عار نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وقت کا ضیاع قوم کے ساتھ زیادتی ہے ۔ آج میں خان صاحب کے الزامات کا جواب دینے کے لئے یہاں موجود ہوں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اس کی بجائے میں عوام کی خدمت کے کسی منصوبے میں وقت صرف کر رہا ہوتا۔ وزیر اعلی نے میڈیا کے نمائندوں کے سوالات کے جواب بھی دیئے۔

FOLLOW US