Thursday January 23, 2025

سائنسدانوں نے آج بلیک ہول کی تصویر جاری کی لیکن قرآن میں 1400 سال قبل ہی ان کا کیسے ذکر کیا گیا؟ جان کر آپ بھی سبحان اللہ کہہ اُٹھیں گے

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) ماہرین فلکیات گزشتہ دنوں تاریخ میں پہلی بار بلیک ہول کی ایک تصویر بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اب تک ہم بلیک ہولز کے بارے میں محض سنتے ہی آ رہے تھے تاہم ماہرین نے ان کی تصویر جاری کی تو پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی اور پہلی بار لوگوں نے دیکھا کہ بلیک ہول کیسا دکھائی دیتا ہے۔ بہرحال سائنس تو آج اس تاریخی

کامیابی تک پہنچی ہے لیکن قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ 1400سال پہلے ہی ان کے بارے میں بتا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بلیک ہولز کے بارے میں سورة نجم کی آیت 12سے 18میں بتارکھا ہے۔ان آیات کریمہ کا ترجمہ ہے”پھر جو کچھ اس نے دیکھا، تم اس میں جھگڑتے ہو(12)۔ اور اس نے اس کو ایک بار اور بھی دیکھا ہے (13)۔ سدرة المنتہیٰ (Lote Tree)کے پاس (14)۔ جس کے پاس جنت الماویٰ ہے (15)۔ جب کہ اس سدرة پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا (یعنی نور)(16)۔ نہ تو نظر بہکی، نہ حد سے بڑھی (17)۔ بے شک اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں (18)۔ان آیات میں اللہ رب العزت نے اپنی نبی کریم ﷺ کے سفرِ معراج کے بارے میں بتایا ہے۔ یہاں سدرة المنتہیٰ کا ذکر ہے جو ایک درخت ہے اور اس درخت کی شکل ہو بہو بلیک ہول کی اس تصویر سے ملتی ہے جو گزشتہ دنوں سائنسدانوں نے جاری کی ہے۔ سائنسدانوں نے بلیک ہول کی جو خصوصیات بیان کی ہے کہ وہاں روشنی اپنے ہی محور کے گرد گھوم جاتی ہے اور یہ انتہائی تاریک مقام ہے جسے کوئی انسان اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ قرآن مجید کی ان آیات میں بھی اس مقام کی یہی خصوصیات بیان کی گئی ہے۔سائنسدانوں کی طرف سے یہ تصویر جاری کیے جانے کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے کے میزبان کلیئرفوریسٹیئر (Clare Forestier)نے بلیک ہول پر تفصیلی تجزیہ پیش کیا اوراس

کے وجود کو قرآن مجید کی ان آیات کے ذریعے ثابت کیا۔ کلیئر فوریسٹیئر نے کہا کہ ”خلاءسیاہ ہے یا تاریکی میں چھپا ہوا ہے۔ بلیک ہول تاریک ترین چیز ہیں اور انسان اپنی آنکھ سے اسے نہیں دیکھ سکتا کیونکہ ہماری بینائی اس ایریا کی حد کو بائی پاس کر جاتی ہے یا اس سے آگے گزر جاتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایریا ایک لینز کی طرح ہے۔ سائنس میں اس کے لیے ’تجازبی عدسہ‘ (Gravitational Lens)کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔“ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ نبی پاک ﷺ نے اپنے سفرِ معراج کے دوران اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نشانیاں دیکھیں اور کلیئر فوریسٹیئر کے مطابق ان میں سے ایک بلیک ہولزہیں۔ بلیک ہول کی شکل کو قرآن مجید نے سدرة المنتہیٰ (Lote Tree)سے تشبیہ دی ہے اور سائنسدانوں نے بلیک ہول کی جو تصویر جاری کی ہے وہ ہو بہو اس درخت کی شکل سے ملتی ہے۔کلیئر فوریسٹیئر نے اس تجزئیے میں ستاروں کے بلیک ہولز میں گرنے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ سائنسی ریکارڈ کے مطابق اب تک تین ستاروں کے بلیک ہولز میں گرنے کے شواہد موجود ہیں۔ بلیک ہولز کی کشش ثقل اتنی ہے کہ اس میں سے کوئی بھی مادی چیز، حتیٰ کہ

روشنی بھی نہیں گزر سکتی ۔ کلیئر فوریسٹیئر نے اپنے تجزئیے میں کہا کہ ”قرآن مجید میں ستاروں کے موضوع پر ایک پورا باب (سورة النجم)موجود ہے۔ کلیئرفوریسٹیئر نے سورة النجم کی ان آیات کا ترجمہ بھی پڑھا جن میں ستاروں کے گرنے کا ذکر موجود ہے اور اسے بلیک ہولز میں ستاروں کے گرنے سے متعلق سائنسی ریکارڈ سے ملایا۔ کلیئر فوریسٹیئر کا کہنا تھا کہ ”قرآن مجید میں بلیک ہولز کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے اسے پڑھ کر جسم میں ایک سرد لہر دوڑ جاتی ہے کیونکہ قرآن مجید میں جو کچھ اتنی صدیاں قبل بیان کیا گیا سائنس وہ کچھ آج ثابت کر رہی ہے۔“

FOLLOW US