Wednesday January 22, 2025

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالےسے متناز ع بیان دینے کے بعدامریکی وزیرخارجہ 22مارچ کوکیاکرنیوالے ہیں؟بڑی خبرآگئی

واشنگٹن (ویب ڈیسک)امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کویت اور اسرائیل کا دورہ مکمل کرنے کے بعد 22 مارچ کو بیروت پہنچیں گے۔ لبنان کی اس بات پر بہت توجہ مرکوز ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اپنے ساتھ کیا پیغام کے کر آ رہے ہیں۔یہ دو ماہ سے بھی کم عرصے میں پومپو کا خطے کا دوسرا دورہ ہے۔ اس دوران ایران کے حوالے سے امریکا کا لہجہ زیادہ

جارح ہوچکا ہے جو ایک سے زیادہ عرب ممالک میں پھیلی اپنی ملیشیاؤں کے ذریعے خطے کے امن کو عدم استحکام سے دوچار کر رہا ہے۔پومپیو کے دورے کے حوالے سے واشنگٹن میں لبنان کے سابق سفیر انطوان شديد نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ “لبنان کی جیو پولیٹیکل پوزیشن نے اسے امریکی ایجنڈے میں اولین حیثیت دے دی ہے کیوں کہ اس کی سرحدیں دو بنیادی ریاستوں اسرائیل اور شام کے ساتھ ملتی ہیں۔ دو لبنانی سیکٹر ایسے ہیں جن کو امریکی انتظامیہ امن و استحکام کے لیے ریڑھ کی ہڈی شمار کرتی ہے۔ پہلا سیکٹر لبنانی فوج اور قانونی حیثیت کے حامل سکیورٹی ادارے اور دوسرا لبنانی بینک ہیں”۔امریکی وزیر خارجہ کے دورے کے ایجنڈے میں بیروت اور واشنگٹن کے درمیان جامع تعلقات کے علاوہ نمایاں ترین موضوع لبنان میں ایران کا بڑھتا ہوا کردار ہو گا جو حزب اللہ کی عسکری اور سیاسی قوت کی مضبوطی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔انطوان کے مطابق ایران اور حزب اللہ پر پابندیوں کا معاملہ پومپیو اور لبنانی عہدے داران کے درمیان بات چیت میں اولین ترجیح ہو گی۔ انہوں نے باور کرایا کہ پومپیو لبنانی ذمے داران کو “بلند آواز” سے یہ بات سنائیں گے کہ وہ لبنان کے فیصلوں میں “حزب الله” کا ہاتھ اور ملک میں اس کے نفوذ کو روک لیں۔ ساتھ ہی حزب اللہ اور ایران پر پابندیوں کی پاسداری کریں اور لبنان کو امریکی پابندیوں کو چکمہ دیے جانے کے واسطے استعمال نہ ہونے دیں۔لبنان کے سابق سفیر کے مطابق پومپیو ایک بار پھر فوج سمیت لبنان کے ریاستی اداروں کے لیے امریکی سپورٹ کی تجدید کریں گے۔ ایران اور حزب اللہ کے حوالے سے امریکی موقف کے باوجود لبنانی فوج کے لیے عسکری سپورٹ کے سلسلے میں امریکی کانگریس کا موقف ثابت قدمی پر مبنی ہے۔اس طرح کی بھی معلومات ہیں کہ پومپیو اپنے دورے میں لبنان کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ “مشرق وسطی میں تزویراتی اتحاد” میں شامل ہو جائے تا کہ خطے کو درپیش سنگین خطرات کا سامنا کیا جا سکے جن میں سرفہرست تہران کی جانب سے سامنے آنے والے مسائل ہیں۔سابق لبنانی سفیر کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ لبنانی عہدے داران سے اس بابت بھی سوال کریں گے کہ لبنانی حکومت “کنارہ کشی” کی پالیسی پر کس حد تک عمل پیرا ہے جو خطے میں بحرانات کے حوالے سے لبنانی حکومت کی بنیادی پالیسی ہے۔ البتہ واشنگٹن کے نزدیک حزب للہ کئی عرب ممالک میں عسکری مداخلت کے ذریعے کنارہ کشی کی اس پالیسی کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔انطوان شدید کے مطابق یہ امر خارج از امکان نہیں کہ امریکی انتظامیہ ایران اور حزب اللہ کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے پابندیوں کا ایک نیا پیکج جاری کر دے۔دوسری جانب پومپیو کے دورے کے موقع پر بیروت اس بات کا بھی خواہاں ہے کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان سمندری سرحد کے حوالے سے تنازع کا

معاملہ متحرک ہو۔ امریکا اس سلسلے میں “ہوف لائن” کو قبول کرنے پر زور دیتا ہے۔ یہ لائن امریکی نمائندے فریڈرک ہوف سے منسوب ہے جنہوں نے 2012 میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان متنازع سمندری علاقے کی تقسیم کے حوالے سے تجویز پیش کی تھی۔ اس تجویز میں کہا گیا تھا کہ مجموعی طور پر 860 مربع کلو میٹر کے رقبے میں سے 500 مربع کلو میٹر لبنان کو اور 360 مربع کلو میٹر اسرائیل کو دیا جائے۔ تاہم لبنان نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے انطوان شدید نے کہا کہ امریکیوں نے اس معاملے میں بنیادی کردار ادا کیا تا کہ سمندری تنازع حل کیا جا سکے ،،، لہذا امید کی جاتی ہے کہ پومپیو اپنے ساتھ ایسا حل لائیں گے جو لبنان اور اس کی تیل کی دولت کے خلاف نہ جائے۔ان تمام امور کے علاوہ پومپیو کی بات چیت میں شام کی صورت حال کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں لبنان کے لیے اہم ترین نقطہ بے گھر شامیوں کی نقل مکانی کے مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔ امریکیوں کی جانب سے یہ زور دیا جاتا ہے کہ پناہ گزینوں کی اپنے وطن واپسی پُر امن تصفیے کی جانب پیش رفت کے ساتھ براہ راست مربوط ہے۔ اس کا مقصد واپس لوٹنے والے پناہ گزینوں کو مطلوبہ ضمانتوں کی فراہمی ہے۔

FOLLOW US