ڈپٹی کمشنر لاہور صالحہ سعید پورے شہر کے لیے ایک دبنگ خاتون مگر گھر میں اور اپنے خاوند کیساتھ ان کا رویہ کیسا ہوتا ہے ؟ دلچسپ انکشاف
خواتین کا عالمی دن شروع ہوا اور پھر رات پڑ گئی۔ پہلی بار آج صبح کے کسی پروگرام میں مختلف باتیں ہوئیں۔ مجھے نام یاد نہیں ہے مگر اتنا یاد ہے کہ ایک پروگرام کی کمپیئرنگ میاں بیوی کر رہے تھے۔ دونوں خوبصورت تھے اور بہت اچھے انداز میں پروگرام کررہے تھے۔ عام طورپر میاں بیوی میں مقابلہ شروع ہو جاتا ہے مگر یہاں دونوں بہت اچھے کمپیئر تھے۔
لہٰذا کسی مقابلے کا کوئی تاثر اور تصور نہ تھا۔ پروگرام میں ڈپٹی کمشنر لاہور محترمہ صالحہ سعید شامل تھی۔ اس کا نام اخبارات میں آتا رہتا ہے۔ یہ بھی انوکھی بات ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر کی ڈی سی ایک خاتون ہے۔ وہ ایک اچھی افسر بھی ہے۔ مجھے یہ معلوم نہیں ہوا ڈپٹی کمشنر کرتا کیا ہے۔ اس نے گفتگو بھی بڑے اعتماد سے اور اعلیٰ اسلوب میں کی۔ اس کے ساتھ ایک بہت بڑی کھلاڑی کو بلایا گیا تھا۔ اس کا نام بھی مجھے بھول گیا ہے۔ تعارف میں نام بتایا گیا ہوگا مگر نہ بتانے کی طرح بتایا گیا۔ صالحہ سعید نے بتایا کہ سی ایس ایس کے امتحان میں اس کا تیسرا نمبر تھا۔ اسے ڈی ایم جی گروپ ملا ہوگا۔ جو اس مقابلے میں آٹھ دس لوگوں بلکہ اب خواتین و حضرات پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے صرف لڑکوںپر مشتمل ہوتا تھا۔ اس گروپ کو پہلا نمبر دیا جاتا ہے۔ دوسرے گروپ میں پولیس کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ آڈٹ اکائونٹس‘ پوسٹ آفس‘ ریلوے وغیرہ وغیرہ۔ ہر شعبے کیلئے افسران کا انتخاب ہوتا ہے۔ صالحہ سعید اسسٹنٹ کمشنر کینٹ لاہور بھی رہی ہیں۔ کمپیئرنگ کی جرأتمندانہ اظہار میں دلچسپ سوال بھی تھے۔ صالحہ نے کہا کہ وہ گھر میں ڈپٹی کمشنر نہیں ہوتیں۔
شوہر صاحب سے درخواست کرکے ہی کوئی بات منوائی جا سکتی ہے۔یہ ایک مکمل عورت کا اظہار ہے۔ جو جرأت اظہار کی طرح ہے۔ مجھے لاہور کے دو ڈپٹی کمشنر کا نام آتا ہے۔ کامران لاشاری اور صالحہ سعید۔ ہمارے پاس بینظیر بھٹو کی شکل میں ایک اعزاز ہے۔ وہ دو دفعہ وزیراعظم پاکستان بنیں۔ وہ تیسری بار بھی وزیراعظم بنتیں مگر کسی نے اقتدار کیلئے اسے شہادت سے ہمکنار کرکے زندہ تر کر دیا۔ وہ شہید کر دی گئیں۔ کاش لوگوں کو پتہ ہوتا کہ یہ بھی ایک منصب ہے۔ اس طرح مرنے والے جہاں رہتے ہیں وہ ایوان اقتدار اور ایوان صدر سے بڑی جگہ ہے۔ شہید بینظیر بھٹو سے مجھے لگائوہے۔ وہ بھی مجھے بہت عزت دیتی تھیں۔ آصف زرداری صاحب اس عزت کو یاد رکھتے ہوئے بھی صدر زرداری بنے کہ وہ بینظیر بھٹو شہید کے شوہر ہیں۔ بلاول بھی اسی مرتبے کی وجہ سے کوئی اعزاز پائیں گے کہ وہ شہید بینظیر بھٹو کے بیٹے ہیں اور عظیم بھٹو صاحب کے نواسے ہیں۔ صدر زرداری کو بھی اسی نسبت سے نوازا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کی نسبت سے مجھے ڈاکٹرپروفیسر پروین خان کا لیکچر یاد آیا۔ انہوں نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں خطاب کیا۔ اس
خصوصی تقریب کا اہتمام برادرم شاہد رشید نے کیا تھا۔ ڈاکٹر پروین خان دانشور خاتون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم خواتین کو ہر شعبہ میں شامل کرنے کے خواہاں تھے۔ ہمارے پیارے رسول کریمؐ نے عورتوں کو حقوق دیئے اور بنت حوا کا مقام بلند کیا۔ تحریک پاکستان کے دوران مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے برصغیر میں خواتین کو متحرک کیا۔اہم خواتین اپنابھی منصب ہے۔ یہ ابدی زندگی کا منصب ہے۔ ڈاکٹر پروین خان نے کہا کہ قائداعظم خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں شامل کرنے کے خواہاں تھے۔ انہوں نے نبی کریمؐ کی تعلیمات کو زندگی کا حصہ بنایا۔ نبی کریمؐ نے عورتوں کے حقوق دیئے اور بنت حوا کا مقام بلند کیا۔ اسلام نے عورت کو بحیثیت ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کے بہت بڑا مرتبہ دیا۔ قائداعظم نے خواتین کے احترام کے لئے معاشرے کو ایک ماحول دیا۔ اپنی عظیم بہن محترمہ فاطمہ جناح کو ساتھ ساتھ رکھا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے بڑی جدوجہد کے بعد برصغیر کی خواتین کو متحرک کیا۔ عورت نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے بڑی قربانیاں دیں۔ خواتین کو بھی اپنا کردار اور رویہ بہتر بنانا چاہئے۔ کنوینر مادر ملت سنٹر پروفیسر ڈاکٹر پروین خان نے کہا کہ آج بھی
خواتین فرسودہ رسومات کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا نصف حصہ ہونے کی حیثیت میں انہیں نمایاں کردار ادا کرنا چاہتے۔ ڈاکٹر پروین خان نے بڑے جذبے سے اور بڑی محبت سے خواتین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ انہوں نے کہا کہ عورتوں کی معاشرے میں خیر اور برکت پھیلانے میں کامیابی سے ایک تحریک چلانے کا آغاز کرنا چاہئے۔ ایک خوبصورت معاشرہ ترتیب دینے میں ڈاکٹر پروین خان خواتین کی قیادت کریں ان کی رہنمائی میں خواتین ایک انقلابی تصور سے کام کرنے کے اہل ہو سکتی ہیں۔ ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں ڈاکٹر پروین خان فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ باقاعدگی سے یہاں تشریف لاتی ہیں۔ نائلہ عمر بھی ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔(تحریر: ڈاکٹر اجمل نیازی )