واشنگٹن(ویب ڈیسک) پینٹاگون نے روسی خطرے کے جواب میں امریکا کے جوہری اسلحہ خانہ کی تجدید اور نئے کم خرچ چھوٹے ایٹم بم تیار کرنے کا خاکہ پیش کر دیا۔ریئلٹی چیک میں برطانوی نشریاتی ادارے نے بتایا کہ اگرچہ سرد جنگ کے بعد دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے، تاہم دنیا میں ابھی ایسے سینکڑوں جوہری ہتھیار موجود ہیں
جنہیں مختصر نوٹس پر چلایا جا سکتا ہے۔ماہرین نے کہا کہ جوہری ہتھیار رکھنے والا ہر ملک اپنی ٹیکنالوجی کو جدت دے رہا ہے۔ ایٹمی اسلحہ مخفی رکھنے کی تمام کوششوں کے باجود 9 ممالک کے تقریباً 9000 جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ ان میں سے تقریباً 1800 ہتھیار ایسے ہیں جو چند لمحوں کے نوٹس پر لانچ کیے جا سکتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر امریکا اور روس کے پاس ہیں۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) کے مطابق جن وار ہیڈز کو ختم کیا جانا ہے ان کی تعداد 15000 ہے جو 1980ء کی دہائی میں 70 ہزار کے قریب تھی۔ حالیہ مہینوں میں شمالی کوریا نے جدید ترین میزائل تجربے کیے اور دعویٰ کیا کہ ان کے ہتھیار امریکا کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ 1970ء سے اب تک امریکا، روس، برطانیہ، چین اور فرانس سمیت 190 ممالک نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی پر دستخط کیے ہیں۔ بھارت، اسرائیل اور پاکستان نے اس معاہدے پر کبھی دستخط نہیں کیے جبکہ شمالی کوریا 2003ء میں اس معاہدے سے علیحدہ ہو گیا تھا۔این پی ٹی امریکا، روس، فرانس، برطانیہ اور چین کو قانونی طور پر جوہری
طاقت مانتا ہے تاہم معاہدے کے تحت ان ممالک کو بھی جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں۔ جنوبی افریقا، بیلاروس، قزاقستان اور یوکرین نے اپنے جوہری ہتھیار ختم کر دئیے ہیں۔فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق امریکا، برطانیہ اور روس اپنے ہتھیاروں کی تعداد کم کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل اور فرانس کے پاس ہتھیاروں کی تعداد قدرے مستحکم رہی ہے جبکہ چین، پاکستان اور شمالی کوریا نئے ہتھیار بھی بنا رہے ہیں۔سپری کے سربراہ شینن کائل نے کہا کہ ہتھیاروں میں جدت لانا این پی ٹی کی روح کے منافی ہے۔ جوہری میزائلوں سے لیس وین گارڈ کو جوہری آبدوزوں میں بدلنا برطانیہ کا منصوبہ ہے۔ 2020ء کی دہائی تک برطانیہ کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 180 رہ جائے گی۔ادھر امریکہ نے اپنے ہتھیاروں میں جدت لانے کے لیے 2040ء کی دہائی تک 10 کھرب ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ امریکا کے تقریباً 150 وار ہیڈز بیلجیئم، جرمنی، اٹلی، ہالینڈ اور ترکی میں نصب ہیں۔ شمالی کوریا نے گذشتہ سال ستمبر میں اپنا چھٹا جوہری تجربہ کیا تھا، تاہم ماہرین ابھی تک اس پر اتفاق نہیں کر سکے کہ شمالی کوریا کا جوہری پروگرام ان وار ہیڈز کو اس کے لانگ
رینج میزائلوں کو لے جانے کے قابل بھی ہے یا نہیں؟نیوز ایجنسیوں کے مطابق پینٹاگون کے این پی آر پالیسی بیان میں امریکی فوج نے روس سے نمٹنے کیلئے چھوٹے جوہری ہتھیار بنانے کی تجویز دی ہے۔ 2010ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی فوج نے مستقبل کے جوہری خطرات کے بارے میں اس قسم کی سوچ کا اظہار کیا ہے۔روسی وزارتِ خارجہ نے واشنگٹن کی پالیسی کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ امریکی ایٹمی پالیسی کے خلاف روس کوحفاظتی اقدامات کا حق ہے۔