Saturday October 26, 2024

میں ہوں عمران خان : عمران احمد خان نیازی کے والد اور والدہ کا تعلق کن قبائل سے تھا اور کپتان کے دادا عظیم خان نے کس طرح انگریزوں اور سکھوں کو نتھ ڈالی تھی ؟ جان کر آپ کو شریفوں کے زوال کی پہلی وجہ معلوم ہو جائیگی

لاہور (اقتباس از کتاب : میں ہوں عمران خان : مصنف فضل حسین اعوان ) عمران احمد خان نیازی۔۔۔۔۔5 اکتوبر 1952 میں پیدا ہوئے لیکن کیتھڈرل سکول میں ان کی تاریخ پیدائش 25 نومبر 1952 درج ہے۔عمران خان کے والد کا نام اکرام اللہ خان نیازی ہے جبکہ ان کی والدہ کانام شوکت خانم ہے، عمران خان کی چار بہنیں ہیں۔ ایک بہن

روبینہ ان سے دو سال بڑی ہے۔ جبکہ تین بہنیں علیمہ، نورین او ر عظمیٰ ان سے چھوٹی ہیں۔ عمران احمد خان نیازی لاہور کے پوش علاقے زمان علاقے میں پیدا ہوئے۔اکرام اللہ نیازی پیشے کے لحاظ سے ‘انجینئر’ تھے اور سرکاری ملازم تھے، وہ پشتونوں کے نیازی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیازی قبیلہ پندرویں صدی میں اٖفغان فاتحین کے ساتھ برصغیر آیا اور ان کی اکثریت میانوالی میں آباد ہوئی جو دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ نیازی ہمیشہ اکھٹے رہتے ہیں اور دور دراز کے رشتے دار بھی ایک دوسرے کے قریب ہی ہوتے ہیں ۔ ان کا آپس میں تعلق ہمیشہ مضبوط رہتا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ میں کتنے ہی اجنبی نیازیوں سے ملتا ہوں۔ انگلیوں پر حساب لگا کر وہ مجھے بتا دیتے ہیں کہ تمہارے دادا کے پر دادا سے ہمارے خاندان کا تعلق کس طرح بنتا ہے۔ دیہا ت میں خوندانی رشتے شہروں سے زیادہ مضبوط ہو تے ہیں۔ میانوالی میں خاندان اس طرح نہیں ہوتے جیسے کراچی اور لاہور ایسے شہروں میں بلکہ سو ڈیڑھ سو افراد پر مشتمل ایک، کنبہ، ایک دادا یا پردادا کی ساری اولاد کو ایک ہی گھرانہ تسلیم کیا جاتاہے۔ سب کچھ سانجھام سب کچھ مشترک، آمدن، ذمہ داریاں،

دوستیاں اور دشمناں، مشکلات اور کامیابیاں،۔ وہ جب گاؤں سے نوکری کی تلاش میں نکلتے ہیں تو شہر میں اپنے رشتہداروں گے گھر ہی آباد کرتے ہیں، رشتہدار نہ ہو تو قبیلے یا اپنے دیہہ کا آدمی۔اکرام اللہ خان نیازی پشتونوں کے برخوخیل قبیلے کے ذیلی قبیلے شرنمان خیل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ قبیلہ قبائل کے بڑے مجموعے “نیازی” کا حصہ ہے۔ عمران خان سرائیکی بولنے والے دادا عظیم خان نیازی 1885 میں پیدا ہوئے تھے۔ بین سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے وہ اپنی تعلیمی اہلیت منواچکے تھے۔ وہ نہایت سادہ زندگی بسر کرنے والے انسان تھے۔ اور انہوں نے کبھی عیش و تلذذ کا ذوق خود میں پیدا نہیں کیا تھا۔ ان کے تصور زندگی میں سخت ترین جسمانی اور ذہنی محنت و مشقت شامل تھی، قہ تین سو سال کی تاریں میں اپنے آباو اجداد کے وطن میانوالی کے اولین میڈیکل ڈاکٹر بننے میں کامیاب ہوئے۔ برٹش انڈیا میں آزادی سے پہلے کے برسوں میں یہ پوار خاندان آل انڈیا مسلم لیگ کا زبردست حامی و مددرگار تھا، ان کی وفات کے بعد ان کے بیتوں نےمحترمہ فاطمہ جناح کی اس زمانے میں میزبانی کی جب وہ 1960 کی دہائی کے وسط میں ایوب خان کے خلاف مہم کے دوران اس علاقے میں آئی تھیں۔

نیازی تعلیم کو ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں۔ عظیم خان نے اکرام اللہ میں انجینئرنگ کا فطری میلان دریافت کیا تھا، چنانچہ اکرام اللہ نے امپریل کالج لندن سے پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کی اور ریاضی میں ماسٹرز کیا۔ اس زمانے میں برٹش انڈیا کا ہر خاندان اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔ شروع شروع میں وہ تدریس اور کو بطور پیشہ اپنانے کی طرف مائل تھے لیکن تھے ان کے چچا نے انہیں قائل کیا کہ اس کے بجائے انہیں انجینئر کے حیثیت سے حکومتی ملازمت قبول کر لینا چاہیے، زمین دارا اشرافیہ میں جنم لینے کے اپنے ہی فائدے ہوتے ہیں۔ دریائے سندھ کے طاس میں میانوالی بھر میں اس خاندان کی وسیع اراضی نے انہیں اپنے قبیلے کے خوشحال ترین اور بااثر ترین خاندان میں شامل کروایا تھا۔ عظیم خان نے میانوالی کےوسط میں خاندانی حوایلی تعمیر کروائی۔ 1947 کے موسم گرما میں یہ حویلی بے شمار بے یارومددگار ہندوؤں اور سکھوں کے لیے پناہ گاہ بن گئی۔عظیم خان 1946 میں وفات پا چکے تھے۔ وہ اس عظیم نقل مکانی کو نہیں دیکھ سکے۔ ان کی اولاد اور قبیلے کے دوسرے لوگوں نے اپنے علاقے میں ہندوؤں کے خون کا ایک بھی قطرہ بھی نہیں گرنے دیا،

ہندو اور سکھ ان کے ہاں پناہ لینے پر ان کے احسان کبھی نہ بھولے اور آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔شوکت خانم کا تعلق برکی قبیلے سے ہے۔ یہ خاندان وزیرستان کے سب سے بڑے قبیلے”گنی گورام” میں رہتا تھا جو افغان سرحد کے قریب ایک زرخیز داری ہے۔ اس کی والدہ ہمشہ بڑے فخر کے ساتھ اپنے بچوں کو بتای تھیں کہ ا ن کے اجداد بڑے غیرت مند اور غیور تھے۔ انہوں نے کبھی انگریزوں کی غلامی قبول نہ کی اور ہمشہ بڑی بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ ان کا خاندان بارہ قلعوں پر مشتمل ایک گاؤں میں ہجرت کر گیا جسے” بستی پٹھاناں” کے نام سے پکارا جاتا، بستی پٹھاناں جلندھر کے قریب امرتسر کے جنوب مغرب میں لاہور سے چالیس میل کے فاصلے پر تھی، تقسیم کے وقت سارا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا، لاہور کا زمان پارک ان کا مشکن بنا۔ پورے کا پورا خاندان محفوظ رہا۔ سکھوں کو ان کی بہادری اور غیرت کا پتہ تھا۔ ان کا گمان تھاکہ اسن کے پاس بھاری مقدار میں اسلحہ بھی ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی، اللہ کی طرف سے ان کا رعب پڑا اور وہ محفوظ لاہور پہنچ گئے۔اکرام اللہ خان بے قبیلے سے باہر “برکیوں” سے تعلق

رکھنے والی شوکت خانم سے شادی کر لی۔ “برکی ” ایک جنگجو قبیلہ ہے، جو تاریخ میں نقل مکانی، بے گھری اور خانہ بدری کے نہایت تکلیف دہمراحل سے گزرا ہے۔ چودہویں صدر کے اولین حصہ تک جنوبی وزیرستان میں کنی گورام کا وطن تھا، یہ علاقہ سحر طاری کر دینے کی حد تک خوبصورت اور نظارہ پرور ہے، تاہم انتہائی دوری پر واقع ہے۔ یہ حسین وادی ہلاکت انگیز قحط کا شکار ہوگئی، دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ وادی موجودہ دور میں بین الاقوامی مسلح نتازع کی شیطانی گرفت میں ہے۔ 1310 میں کنی گورام میں قحط پڑا جومسلسل چھ سال جاری رہا۔ برکیوں کا وہاں سے خروج ہوا اور وہ موجودہ زمانے کے ہندوستانی پنجاب میں واقع جالندھر تک پہنچ گئے۔ جولوگ انتی دور نہیں جا سکے ور کرک کے علاقے میں داؤد شاہ، کرم ایجنسی ، اورل زئی ایجنسی، بنوں اور سوات میں آباد ہو گئے۔ تاہم آج بھی کئی گورام میں برکی تھوڑی تعداد میں آبد ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ عمران اور اس کے خاندان کے ساتھ ان کی رشتہ داری ہے۔اکرام اللہ کی طرح شوکت خانم بھی ایک اشرافیہ گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد احمد احسن خان شائستہ و مہذب انسان اور ایک بیوروکریٹ تھے جبکہ ان کی والدہ امیر بانو ایک خوبصورت گھریلو خاتون تھیں۔ وہ اپنے زمانے کے معیارات کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔شوکت خانم 1927 میں جالندھر کی بستی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے باقی تین بہن بھائی نعمیہ خانم، اقبال جان اور اکلوتا بھائی احمد رضا خان بھی وہیں پیدا ہوئے تھے۔

FOLLOW US