Monday October 28, 2024

وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے عمران خان کے نامزد کردہ امیدوار ہمایوں یاسر کے خلاف کون کون سے کیس عدالتوں میں ہیں ؟ ناقابل یقین خبر آ گئی

لاہور (ویب ڈیسک) چکوال سے پی پی 21؍ کی نشست سے الیکشن جیتنے والے پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی راجہ یاسر ہمایوں نے کہا ہے کہ اگر پارٹی چیئرمین عمران خان نے انہیں صوبے کی وزارت اعلیٰ کے عہدے کیلئے منتخب کیا تو یہ ان کیلئے باعث فخر بات

ہوگی۔ تا ہم ان کا نام دو مختلف کیسز میں بھی سامنے آیا ہے ان میں سے ایک ڈرگ کورٹ کی جانب سے قصور وار قرار دیے جانے او ردوسرا کیس غیر رجسٹرڈ یونیورسٹی چلانے کا ہے۔ تاہم، راجہ یاسر الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کیخلاف نامعلوم وجوہات کی بنا پر پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے۔تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ عمران خان یا پارٹی کے دیگر رہنمائوں کی جانب سے اب تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔ چکوال سے تعلق رکھنے والے راجہ یاسر ہمایوں پوٹوہار ریجن کے ضلع سے تعلق رکھتے ہیں جہاں پی ٹی آئی نے 2018ء کے عام انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ انہیں عمران خان کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے اور ان کا نام بطور وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر میڈیا میں آ رہا ہے۔ تاہم، اسی موقع پر ان کا نام دو مختلف کیسز میں بھی سامنے آیا ہے ان میں سے ایک ڈرگ کورٹ کی جانب سے قصور وار قرار دیے جانے او ردوسرا کیس غیر رجسٹرڈ یونیورسٹی چلانے کا ہے۔ تاہم، راجہ یاسر الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کیخلاف نامعلوم وجوہات کی بنا پر پروپیگنڈہ

مہم چلائی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے دور سے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے راجہ یاسر کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان 1929ء سے سیاست میں فعال کردار ادا کر رہا ہے، ان کے دادا قانون ساز اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں جبکہ خاندان کے دیگر ارکان بھی چکوال سے سیاست کا حصہ رہے ہیں۔ وہ 2014ء کے دھرنے میں بھی سرگرم رہ چکے ہیں۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے راجہ یاسر کا کہنا تھا کہ غیر رجسٹرڈ یونیورسٹی چلانے کا الزام بے بنیاد ہے اور ایسی کوئی یونیورسٹی ہے ہی نہیں جو وہ چلا رہے ہیں یا ان کی ملکیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ صرف مایئرز کالج نامی ادارہ چلا رہے ہیں جس کا رجسٹریشن نمبر پی کے 035؍ ہے اور یہ کیمبرج یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہے۔ 2015ء کے ڈرگ کورٹ کے کیس کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انہوں نے 2008ء میں ایک کمپنی شاہین کیمسٹ سے رابطہ کرکے چکوال میں شاخ کھولنے کا کہا تھا۔ تاہم، مذاکرات 2011ء تک جاری رہے اور بعد میں انہوں نے 85؍ فیصد شیئرز مختلف خریداروں کو فروخت کر دیے لیکن لائسنس ان

کے نام پر ہی رہا۔ انہوں نے کہا کہ صرف 15؍ فیصد شیئرز ان کی والدہ کے نام ہیں تاکہ خاندان سماجی فلاح و بہبود کا کام جاری رکھ سکے جن میں ضلع کے لوگوں کو طبی سہولتوں کی فراہمی، میڈیکل کیمپس کا قیام وغیرہ شامل ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 2013کے عام انتخابات کے دوران کچھ عناصر ان کے خلاف متحرک ہوگئے تھے اور ان دنوں میں ایک شخص جس کا نام عمران اشرف تھا جو کہ ایک سیلز مین تھا ، اسے گرفتار کیا گیا تھا اس سے غیر قانونی دوائیاں جس کی مالیت 8ہزار روپے سے زائد نہیں تھی برآمد ہوئی تھی۔پی ٹی آئی ، ایم پی اے کا کہنا تھا کہ ان کا کبھی بھی عمران اشرف نامی شخص سے تعلق نہیں رہا لیکن اس نے غلط طور پر ان کا نام لیا جس کے بعد اسے(یاسر)کو گرفتار کرلیا گیا۔راجا یاسر کا کہنا تھا کہ وہ 2014کے دھرنوں کے دوران خاصے سرگرم رہے تھے ، جس کے بعد انتظامیہ نے ان کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں اللہ دتہ نامی ایک ڈرگ انسپکٹر نے گرفتار کیا لیکن قانون طریقہ کار پر عمل درآمد نہ ہونے کے باوجود اور ان کے خلاف مقدمے کی ڈی سی

کے سامنے سماعت نہ ہونے کے باوجود جس کا اقرار ان کے نمائندے نے ڈرگ کورٹ میں بعد ازاں کیا۔راجا یاسر کا کہنا تھا کہ ڈرگ کورٹ نے جولائی 2015میں رمضان المبارک کے مہینے میں انہیں سزا سنائی لیکن اس کے کچھ روز بعد راولپنڈی میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی فل بینچ نے ڈرگ کورٹ کے حکم کو معطل کردیا اور انہیں ضمانت دے دی گئی۔پی ٹی آئی، ایم پی اے کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے دور حکومت میں انہوں نے جلد انصاف کے لیے درخواست دائر نہیں کی کیوں کہ بہت ممکن تھا کہ اگر عدالت انہیں چھوڑ دیتی تو ان کے مخالفین انہیں ٹارگٹ کرنے کے لیے دیگر مقدمات میں پھنسا دیتے ۔اب ان کا کہنا تھا کہ وہ اس زیر التوا ء مقدمے میںجو کہ سیاسی انتقام کی مثال ہے، میں جلد انصاف کے لیے درخواست دائر کریں گے ۔راجا یاسرہمایوں کا کہنا تھا کہ پارٹی چیئرمین عمران خان بھی مختلف عوامی جلسوں میں اس بات کا ذکر کرچکے ہیں۔میڈیا اور پارٹی حلقوں میں ان کا نام وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے لیا جارہا ہے سے متعلق سوال کے جواب میں راجا یاسر کا کہنا تھا کہ انہیں پارٹی چیئرمین نے اس ضمن میں آگاہ نہیں کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں پارٹی چیئرمین سے ملاقات میں انہوں نے صرف تعلیمی پالیسی پر بات کی تھی، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان انہیں صوبے کی یہ اہم ذمہ داری سونپے گےتو یہ ان کے لیے باعث افتخار ہوگا

FOLLOW US