Monday October 28, 2024

خان صاحب : یہ جو زندگی تم جیت رہے ہو تمہاری نہیں قوم کی امانت ہے ، اس میں خیانت نہ کرنا ورنہ ۔۔۔۔نامور خاتون کالم نگار نے عمران خان کو مخاطب کرکے بہت بڑی بات کہہ ڈالی

لاہور(ویب ڈیسک)راجن پور سے تحریک انصاف کے نومنتخب ایم پی اے طارق دریشک برین ہیمبرج کی وجہ سے مر گئے۔ ابھی تو مرحوم نے حلف بھی نہیں اٹھایا تھا۔ طارق دریشک کی عمر صرف 52 سال تھی۔ یہ سیٹ انہوں نے دن رات جنگ کرکے جیتی تھی۔ ابھی دو دن پہلے وینزویلا میں

خاتون کالم نگار ڈاکٹر عارفہ صبح خان اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں۔۔۔۔ نیشنل گارڈز کی تقریب میں صدر نکلوس میڈرڈ پر بارود سے بھرے ڈرونز سے قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ وینزویلا کے صدر نکولس میڈرڈ کے چہرے پر کسی قسم کا ڈر یا خوف نہیں تھا اور نہ ہی وہ اپنی جگہ سے ڈر کر بھاگے۔ وینزویلا کے سابق مرحوم صدر ہوگو شاویز بھی غضب کے بہادر آدمی تھے۔ وہ مرتے دم تک امریکی صدر سے جنگ کرتے رہے اور امریک پالیسیوں اور چیرہ دستیوں کو ہدف تنقید بناتے رہے۔ ہوگو شاویز للکار کر امریکی صدر کو برا بھلا کہتے تھے۔ مرتے دم تک ان کا مورال بلند رہا۔ مجھے 2013ءکا الیکشن یاد آگیا۔ عمران خان لاہور میں جلسے کیلئے سٹیج پر آرہے تھے کہ ایک دھکے کی وجہ سے سر کے بل اوپر سے آکر گرے اور انہیں شدید چوٹیں آئیں۔ الیکشن کے دوران وہ شوکت خانم میں زیرعلاج تھے۔ چاہتے تو فوراً انگلینڈ علاج کیلئے چلے جاتے‘ لیکن انہوں نے اپنے ملک کے ہسپتال کو ترجیح دی اور جب ابھی انہیں ہسپتال میں دوسرا دن تھا تو انہوں نے جو باتیں کیں‘ وہ قابل توجہ ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ خدا نے مجھے دوسری زندگی دی ہے۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ

اتنے بڑے حادثے کے بعد میں بچ سکوں گا‘ لیکن خدا نے مجھے بچا لیاا اور اب میری یہ زندگی قوم کی امانت ہے۔ خدا نے مجھ سے کوئی بڑا کام لینا تھا جو مجھے بچا لیا۔“ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بہت بڑا حادثہ تھا۔ عمران خان کافی بلندی سے سر کے بل گرے تھے۔ یہ ایک معجزہ ہی تھا کہ عمران خان زندہ بچ گئے۔ تاریخ ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے جب حکمران اور سیاستدان انہونے طریقے سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ ابھی عمران خان نے حلف نہیں اٹھایا ہے۔ اسی لئے میں عمران خان کو یاد دلانا چاہتی ہوں کہ اب وہ جو زندگی جی رہے ہیں‘ وہ عوام کی امانت ہے۔ اللہ نے انہیں دوسری زندگی اس لئے دی ہے کہ وہ اپنی قوم اور ملک کیلئے کچھ کر سکیں۔ یہ قوم 70 سال سے جبر‘ استحصال‘ ناانصافی‘ ظلم‘ بربریت‘ دہشت گردی‘ مہنگائی بیروزگاری اور حق تلفیاں برداشت کر رہی ہے۔ اس قوم کو کبھی مسیحا نصیب نہیں ہوا۔ کبھی کوئی بڑا لیڈر نہیں ملا جو قوم کی کشتی بھنو رسے نکالتا۔ جب بھی ملے لوٹ مار کرنے والے اور نااہل‘ غاصب‘ خودغرض‘ لالچی‘ بدعنوان لوگوں سے پالا پڑا۔

قوم کی آپ آخری امید ہیں۔ اگریہ امید بھی ٹوٹ گئی تو پاکستانی ووٹ دینا چھوڑ دیں گے اور بھروسہ کرنا بھی چھوڑ دینگے۔ عمران خان کو یہ ووٹ اس اعتماد کا اظہار ہیں کہ عوام نے عمران خان پر یقین کیا ہے۔ عمران خان نے اس یقین کو توڑنا نہیں بلکہ اس یقین اور اعتماد کو آگے بڑھانا ہے۔ اقتدار کی کشتی‘ چمک اور دلکشی اپنی جگہ ہے‘ لیکن اقتدار کی جنگ بدعنوان اور سازشی عناصر کے ساتھ ہی نہیں ہوتی۔ اقتدار کے ساتھ آپ کو موت کے خونیں پنجے سے بھی لڑنا ہوتا ہے۔ بہادر اور قابل حکمران کے تو یسے بھی ہزار دشمن ہوتے ہیں اس لئے عمران خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اقتدار مسلسل امتحان ہے۔ اس جنگ میں غازی بن کر نکلنا ہے اور اپنی دکھی مظلوم مایوس قوم کی امیدوں پر پورا اترنا ہے۔ اس ملک کو ایک بار تو بڑا لیڈر نصیب ہوا‘ اس قوم کے دن بدلیں۔ کچھ لوگ مسلسل اعتراض کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ کیوں ہاتھ ملایا ہے۔ یہ اعتراض اپنی جگہ بجا ہے‘ لیکن حکومت سازی کیلئے یہ انتہا درجے کی مجبوری بھی ہے۔ ایم کیو ایم نہ قابل اعتبار ہے اور نہ اسے ملک و قوم کا درد ہے۔

جسے ملک قوم کا درد ہو وہ کبھی بلیک میلنگ نہیں کرتے‘ لیکن ایم کیو ایم کی تمام سیاست ہی بلیک میلنگ سے جڑی ہے۔ اسی لئے پاکستان کی جڑیں کمزور ہو رہی ہیں‘ لیکن جو لوگ ایم کیو ایم سے دوستی پر جزبز ہیں‘ خود ان کا اپنا کردار کیا ہے۔ وہ تو ایم کیو ایم سے بھی زیادہ گئے گزرے نکلے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کے بیانات سے انسان بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ انہیں پاکستان اور عوام سے رتی برابر دلچسپی نہیں ہے بلکہ اگر امریکہ‘ اسرائیل‘ بھارت انہیں دعوت دیں کہ تم کشمیر‘ بلوچستان سے دستبردار ہو جاﺅ تو ہم تمہیں اقتدار دلا دینگے تو یہ لوگ ایسا بھی کر گزریں گے۔ اگر انہیں پاکستان سے ایک ذرہ برابر بھی محبت ہوتی یا یہ لوگ پاکستان سے مخلص ہوتے تو کبھی ریشہ دوانیاں نہ کرتے بلکہ عمران خان کو کامیابی پر مبارکباد یتے اور عمران خان کا ساتھ دینے کی بات کرتے۔ اگر انہیں واقعی پاکستان کی خدمت کرنے کا شوق ہوتا تو یہ عمران خان کے ساتھ مل کر اپنے ملک کی بنیادیں مضبوط کرتے۔ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ گزشتہ 35 سالوں سے باری باری اقتدار کی باریاں لیکر حکومت کرتے آرہے ہیں۔ اپوزیشن میں بھی

ہر رکن اسمبلی کو تنخواہیں‘ مراعات‘ فنڈز‘ ترقیاتی بہبود کیلئے کروڑوں کی رقوم ملتی ہیں۔ خدمت کرنی ہو تو آدمی بغیر پیسوں کے بھی خدمت کر سکتا ہے‘ لیکن ان لوگوں نے اقتدار کے مزے لوٹتے ہوئے ملک کھربوں روپیہ ڈکارا ہے جبکہ خدمت کے بجائے لوٹ مار کی ہے۔ اگر ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کی تھی تو وہ دو ماہ میں ہی ختم ہو گئی۔ کوئی سڑک بنی نہ کوئی پل بنا‘ نہ میٹرو چلائی نہ کسی ہاسپٹل میں مریضوں کا بروقت‘ مفت اور صحیح علاج ہوا‘ نہ تعلیم کا معیار بلند ہوا‘ نہ نالج پارک بنا ۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے تعلیم کو ہزاروں لاکھوں روپوں کی فیسوں سے بزنس بنا لیا۔ کوالٹی ایجوکیشن کے بجائے کو انیٹی ایجوکیشن قائم کر دی۔ سمسٹر سسٹم اور CGPA نے قوم کے نونہالوں کا ستیاناس کر دیا۔ حد تو یہ ہے کہ پاکستان میں 70 فیصد ادویات جعلی اور کثیر المیعاد ہیں۔ پاکستان کو بدعنوان کھا رہا ہے۔ ہر شخص نمود و نمائش کیلئے بدعنوانی کرتا ہے۔ رشوت کھاتا ہے، پاکستان میں اکثر لوگوں کا کیریئر اقربا پروری، سفارش اور رشوت پر کھڑا ہے۔ بہت سارے لوگوں کی نوکریاں چرب زبانی، خوشاممد، چاپلوسی، پی آر شپ پر چل رہی ہے۔ یہ سارے وہ لوگ ہیں

جنہوں نے میرٹ کا قتل عام کیا ہے اور لوگوں کا حق مار کر خود ان کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ لوگ بیروزگار ہیں اور میرٹ پر انہیں آنے سے پہلے من پسند لوگوں کو تعینات کر لیا جاتا ہے۔ جب لوگوں کا حق مارا جاتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں نفرت، غصہ، انتقام پیدا ہوتا ہے اور اس سے معاشرے میں اضطراب، بے چینی، بدامنی، انتشار جنم لیتا ہے جیسا کہ پاکستان میں ہے۔ جب معاشرے میں گھٹن بڑھ جائے اور انصاف نہ ہو تو معاشرہ ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ یہی حال پاکستانی معاشرے کا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی جو اسلام کی بڑی باتیں کرتی ہے اور جو پورے پونے پانچ سال کے پی کے میں اقتدار کے مزے لوٹتی رہی۔ آخری وقت میں مسلمان ہو گئی اور پی ٹی آئی سے الگ ہو گئی۔ اب سراج الحق عجیب و غریب منطقیں گھڑ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی حد کر دی ہے کہ عمران خان کےخلاف محاذ آرائیوں کے مشورے دے رہے ہیں۔ جلسے جلوسوں، احتجاجی ریلیوں اور دھرنوں کے عندیئے دیئے جا رہے ہیں۔ کیا اسلام نے یہ سکھایا ہے کہ لوگ آپ کو مسترد کر دیں اور آپ کو قبول نہ کریں تو

آپ جیتنے والوں کی زندگی حرام کر دیں۔ دوسری طرف شہباز شریف بار بار زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹتے اور گریبان پکڑنے کی باتیں کرتے تھے اور اب جا کر انکے گلے لگ گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بھی بھٹو اور بے نظیر کا نام ڈبو دیا ہے۔ اسفندیار، محمود اچکزئی جیسے لوگ کبھی پاکستان کے وفادار نہیں رہے۔ عمران خان کو بیک وقت ایسے لوگوں سے پالا پڑا رہے گا جو عمران خان کی ہر اچھی کوشش کو داغدار کریں گے۔ ایم کیو ایم بھی بلیک میلنگ جاری رکھے گی۔ اقتدار کے مزوں سے زیادہ عمران خان کو اندرونی و بیرونی مخالفین اور سازشوں سے مسلسل نبردآزما ہونا ہو گا۔ عمران خان کی کامیابی تب ممکن ہے جب وہ عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کریں گے۔ عوامی بہبود کے کام کریں گے اور عوام کو ریلیف دینگے۔ ق لیگ دوستی نبھانے والی جماعت ہے اور پرویز الہی ایک شرف سیاستدان ہیں پرویز الٰہی سے عمران خان کے ہاتھ مضبوط ہونگے۔ عمران خان کو معیشت بہتر کرنے کےلئے ٹیکس لگانے کی بجائے قوم کو کام پر لگانا ہو گا۔ جب پاکستان قوم کام کرے گی تو ملک ترقی کرےگا۔ عمران خان کو خدا نے موقع دیا ہے۔ انہوں نے موت کو شکست دی تھی، اب اقتدار کو امر کرکے دکھائیں تو جانیں۔

FOLLOW US