اسلام آباد (نیوزڈیسک) نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے سینئیر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے فواد چوہدری میرے پسندید ہ اُمیدوار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف میں دو گروپس ہیں جن میں اس حوالے سے شدید کشمکش ہے اور وہ دو گروپس جہانگیر ترین اور شاہ محمود ترین کے ہیں۔انہوں نے کہا
کہ علیم خان عرصہ دراز سے ہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے اُمیدوار تھے، عمران خان بھی عرصہ دراز سے اگرچہ یہ کبھی کہا نہیں تھا لیکن وہ یہی تاثر دے رہے تھے کہ علیم خان کی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے اُمیدوار ہوں گے۔ عمران خان جب بھی لاہور آتے تھے ان کے ہاں ٹھہرتے تھے ان کے دفتر میں بیٹھتے تھے۔ یہاں تک کہ سینٹرل پنجاب کے ٹکٹس بھی علیم خان نے تقسیم کیے۔دوسری جانب شاہ محمود قریشی کی بھی خواہش تھی کہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب بن سکتے لیکن وہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے اور اب وہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب کیسے لڑیں گے ، جہانگیر ترین نے ترین نے خاکوانی صاحب کو صوبائی اسمبلی کے لیے پارٹی ٹکٹ دلوایا تھا ،اور وہ چاہتے تھے کہ خاکوانہ صاحب وزیر اعلیٰ پنجاب کے اُمیدوار ہوں لیکن وہ بھی الیکشن ہار گئے۔دونوں گروپس میں سے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین تو انتخاب لڑنہیں سکتے۔ ان دونوں بڑے گروپس کے پاس اپنے اُمیدوار تو ہیں نہیں، اسی لیے اب وہ ڈمی وزیر اعلیٰ لانا چاہتے ہیں تاکہ اگر مستقبل میں جہانگیر ترین کے مقدمات ٹھیک ہو جائیں تو وہ وزیراعلیٰ کا انتخاب جیت کر عہدہ سنبھال لیں اور شاہ محمود قریشی بھی اپنا ڈمی اُمیدوار لانا چاہتے ہیں تاکہ اگر کل کو وہ صوبائی اسمبلی کی نشست جیت جائیں تو وہ اُمیدوار اپنی جگہ خالی کر دے لیکن تاریخ میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔جو وزیراعلیٰ کے عہدے پر بیٹھ جائے گا اس کی بھی کوشش ہو گی کہ وہ مستقل ہو جائے۔ پاکستان تحریک انصاف میں اب تین ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔ ایک اسلم اقبال ہیں جن کا تعلق آرائیں خاندان سے ہے اور انہیں اس برادری کی کافی سپورٹ حاصل ہے۔ دوسری ڈاکٹر یاسمین راشد اعوان ہیں، ویسے تو یاسمین راشد صاحبہ چکوال کی رہائشی ہیں لیکن ان کی شادی لاہور میں ککے زئی خاندان میں ہوئی ہے ایک اور اُمیدوار کو میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں، یہ اُمیدوار ڈیرہ اسماعیل کے خان صاحبان کے رشتہ دار ہیں، وہ جہانگیر ترین کے رشتہ دار ہیں، ان کا بڑا بھائی شاہ محمود قریشی کا دوست ہے اور یہ سب عمران خان کے دور میں ایچیسن میں زیر تعلیم رہے ہیں ، یہ سب چیزیں ان کو ایک اچھا اُمیدوار بناتی ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان پارٹی میں موجود دو گروپوں کو کیسے مطمئن کرتے ہیں