اسلام آباد (ویب ڈیسک)متحدہ اپوزیشن میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد دونوں سیاسی جماعتوں کے اندر بڑے گروپس نے اس اتحاد کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے اسپیکر اور وزیر اعظم کا الیکشن لڑنے کے اعلان کے پارٹیوں کے اندر اُمیدواروں کے
ناموں پر شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ قومی اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کے اندر ایک بڑا گروپ ، جو نظریاتی طور پر مسلم لیگ ن سے شدید اختلاف رکھتا ہے، کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی طور بھی شہباز شریف کو ووٹ نہیں دینا چاہئیے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی انتخابی مہم پاکستان تحریک انصاف سے زیادہ مسلم لیگ ن کی مخالفت کی ہےاور اب ن لیگ کے اُمیدوار کی حمایت کرنے سے عوامی طور پر ہماری سخت رسوائی ہو گی اور عوام میں ہمارے لیے عدم اعتماد پیدا ہو گا۔اس بڑے گروپ کا کہنا ہے کہ ہم پر پہلے ہی گذشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ ن کے ساتھ فرینڈلی اپوزیشن کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور ایسے میں اب اس طرح اکھٹے ہونے سے عوام کو یہی تاثر جا رہا ہے کہ جیسے تمام سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف سے خوفزدہ ہیں اور اسی لیے متحد ہو گئی ہیں۔دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کے اندر بھی ایک بڑے گروپ نے اس معاملے کو مسلم لیگ ن کے خلاف سازش قرار دیا ہے ۔۔مسلم لیگ ن کے اندر ایک بڑے گروپ کا کہنا ہے اسپیکر کے انتخاب میں
پاکستان پیپلزپارٹی ہم سے ووٹ لے کر وزیر اعظم کے انتخاب میں ہاتھ نہ کر جائے اور اگر ایسا ہوا تو ہماری سیاست یکسر ختم ہو جائے گی ۔ ہم نے اپنی انتخابی مہم میں جس کے خلاف نعرے لگائے ، جسے چور کہا ، اب اس کے ساتھ بیٹھنے سے ہماری پوزیشن مزید خراب ہو جائے گی ۔مسلم لیگ ن کے سینئیر رہنماؤں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر ہم ایسا کر کے پاکستان تحریک انصاف کو مضبوطی بخشتے اور اپنی سیاسی موت کو دعوت دے رہے ہیں ، تو کیا متحدہ اپوزیشن نوازشریف کے معاملے پر ہمارا ساتھ دے گی؟ پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر یہ بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ کسی طریقہ سے پہلے ان سب سے اسپیکر کے لیے ووٹ لے لیں اور ساتھ میں ن لیگ کو وزیر اعظم کے لیے ووٹ دینے کی پیشکش کر کے ان کا اُمیدوار نامزد کروا کر اس کے بدلے میں اپوزیشن لیڈر اپنا بنانے کی کوشش کریں۔کیونکہ اگر متحدہ اپوزیشن کی حکومت بن گئی تو پھر وزارتیں بھی لیں گے اور اگر متحدہ اپوزیشن ناکام ہوئی تو پھر پہلے جو ہمیں اسپیکر کے زیادہ ووٹ ملے ہوں گے اسی بنا پر ہم یہ مطالبہ کریں
گے کہ اپوزیشن لیڈر ہمارا ہو۔ کچھ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے باقاعدہ ایک سیاسی گیم کھیلی ہے تاکہ ایک تیرسے دو شکار کیے جا سکیں جس کے مطابق ایک اپوزیشن لیڈر کی سیٹ لینے اوردوسرا ن لیگ کو اسمبلی کے اندر نقصان پہنچایا جائے گا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر مسلم لیگ ن کے بیانیے کو لے کر بھی بحث کی جا رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنماؤں نے اسمبلی کے اندر مسلم لیگ ن کے بیانیے اور نواز شریف کی سزا سے متعلق کسی بھی بحث میں نہ پڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی ذرائع نے بتایا کہ وقتی طور پر مسلم لیگ ن کی حمایت حاصل کر لی جائے گی لیکن اگر اسمبلی میں مسلم لیگ ن نے اپنے بیانیے کو فروغ دینے یا نواز شریف کی سزا اور بیماری پر بات کرنے کی کوشش کی تو پیپلز پارٹیہرگز مسلم لیگ ن کا ساتھ نہیں دے گی۔