لاہور(ویب ڈیسک)پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے امیدواروں کی نامزدگی ممکنہ وزیراعظم عمران خان کیلئے بڑا امتحان بن گئی اور کہا یہ جا رہا ہے کہ 25 جولائی کے انتخابی مینڈیٹ کے بعد مرکز اور پنجاب میں سادہ اکثریت کا بڑا چیلنج در پیش تھا ،مرکز میں اس حوالے سے مسائل اس
معروف تجزیہ نگار سلمان غنی اپنی تحریر میں لکھتے ہیں۔۔۔۔ لیے پیدا نہ ہوئے کہ قائدِ ایوان واضح تھا جبکہ دوسری جانب پنجاب میں اپنی عوامی اکثریت کے ساتھ ساتھ قائدِ ایوان کیلئے امیدوار کا چناؤ بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا اور ابھی تک اس حوالے سے مشاورتی عمل کا سلسلہ جاری ہے ۔ وزیراعلیٰ کیلئے امیدواروں کی تعداد ایک درجن سے زائد ہے ۔ البتہ اس وقت نصف درجن کے قریب نام سامنے آئے ہیں جن میں علیم خان، اسلم اقبال، سبطین خان، میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، راجہ یاسر ہمایوں شامل ہیں اور ان ناموں کے حوالے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ لابنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔دوسری جانب پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے جہانگیر ترین اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے درمیان غیر علانیہ سرد جنگ نے پی ٹی آئی کی اپنی تنظیم اور پارٹی ڈسپلن کو تہہ و بالا کر رکھا ہے ۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے امیدوار کی نامزدگی ممکنہ وزیراعظم عمران خان کیلئے بظاہر تو دردِ سر بن چکا ہے ۔ اس کے لیے پارٹی کے اندر دوڑ شروع ہو چکی ہے ۔ ایک گروپ جہانگیر ترین کا ہے ۔ جو عملاً اس وقت پارٹی کے اندر مضبوط بھی
ہے اور چیئر مین عمران خان کے نزدیک بھی ہے ۔ ذاتی طور پر جہانگیر ترین کی ایک بھاری سرمایہ کاری تحریک انصاف اور خود عمران خان کی ذات پر ہے ۔ یہ گروپ اپنے کسی خاص آدمی کو وزیراعلیٰ پنجاب لانا چاہ رہا ہے ۔ البتہ جہانگیر ترین خود سیاست کا حصہ ہوتے تو وزیراعلیٰ پنجاب کی گفتگو اور پارٹی کے اندر محاذ آرائی کا مرحلہ بھی نہ آتا۔ مگر ان کی غیر موجودگی میں شاہ محمود قریشی اپنی ذات کیلئے نہایت سرگرم ہیں اور صوبائی سیٹ پر ہار کے باوجود ضمنی الیکشن میں صوبہ کی وزارت اعلیٰ کے منصب کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس وزیراعلیٰ کے نام کے مزید انتظار کا تعلق تحریک انصاف اور جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے اتحاد سے بھی ہو سکتا ہے ۔ کیونکہ پنجاب میں ن لیگ کی ہار کے پیچھے جو ہوا چلائی گئی تھی اس میں جنوبی پنجاب کے ان بڑے سیاسی خانوادوں کا تعلق تھا۔ ظاہر ہے یہ موقع شناس سیاستدان بھی اقتدار کا حصہ پنجاب میں ضرور مانگ رہے ہونگے ۔ غیر متوقع اور ڈرامائی طور پر صوبہ کا نیا وزیراعلیٰ کوئی سرائیکی بھی ہو سکتا ہے ۔ پنجاب میں جیتنے والے بہت سے امیدوار روایتی بھی ہیں اور کرپشن
الزامات کی زد میں بھی ہیں۔ شاید اب تبدیلی کا مینڈیٹ ان مبینہ کرپٹ سیاسی شخصیات کا بوجھ نہ اٹھا سکے ۔ لہٰذا امید رکھی جانی چاہئے کہ پنجاب کے منصب پر کسی صاف اور شفاف شخصیت کی تعیناتی ہو گی۔ کیونکہ اسے بڑے بڑے فیصلے کرنے ہونگے ۔ خصوصاً نئے انتظامی صوبہ کی تشکیل کا معاملہ، صوبائی مالیاتی ایوارڈ کا معاملہ، پولیس اصلاحات سمیت تعلیم اور صحت کا شعبہ کسی انتھک اور محنتی سیاسی کارکن کا تقاضا کر رہا ہے ۔ بہتر ہو گا چیئر مین پی ٹی آئی اپنی ہی صفوں میں بہتر اور لائق لوگوں کو اس منصب کیلئے منتخب کریں۔ ان کی نظر انتخاب ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں اسلم اقبال اور سبطین خان جیسے صاف شفاف اور نظریاتی لوگوں پر پڑنی چاہئے ۔ جن پر نہ تو بدنامی کا داغ ہے اور نہ ہی نیب ان کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔ یہ تینوں شخصیات عمران خان کی نظریاتی جدوجہد کے کارکن رہے ہیں اور آج بھی وزارت اعلیٰ کے سوال پر گیند عمران خان کی کورٹ میں پھینک دیتے ہیں۔