Friday November 1, 2024

کل کا ہیرو ، آج کا زیرو ۔۔۔۔ تحریک انصاف نے فتح کے چند روز بعد ہی صادق سنجرانی کے معاملے پر دھماکہ خیز یوٹرن لے لیا

کراچی (ویب ڈیسک)پی ٹی آئی کے رہنما چوہدری سرور نے کہا ہے کہ اپوزیشن جب چاہے چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد کا ووٹ کرسکتی ہے، بھارت کے ساتھ لڑائی نہیں اچھے تعلقات چاہتے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، پنجاب میں پی ٹی آئی کو 150ارکان

کی حمایت حاصل ہوچکی ہے، سینیٹ میں پی ٹی آئی حکومت کو چیلنج کا سامنا ہوگا، کسی امیدوار کے ایک سے زائد نشستوں پر انتخاب لڑنے پر پابندی ہونی چاہئے، اقتدار انجوائے کرنے کے بعد انتخابات سے قبل دوسر ی پارٹی میں جانے والوں کو روکنے کیلئے بیریئر ہونا چاہئے۔ وہ جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی اور ن لیگ کے رہنما محمد بلیغ الرحمٰن بھی شریک تھے۔محمد بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ ہماری شکایت پی ٹی آئی سے نہیں ان اداروں کے ساتھ ہے جنہوں نے الیکشن کروایا، الیکشن کمیشن نااہلی میں نمبر ون ثابت ہوا ہے،مسلم لیگ ن ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت میں شامل نہیں ہے۔سعید غنی نے کہا کہ صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ کیلئے پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ نہیں تھے ہم نے ان پر اتفاق کیا تھا،انتخابات میں بھرپور طریقے سے دھاندلی کی گئی ہے، دھاندلی نہیں ہوتی تو پیپلز پارٹی زیادہ نشستیں حاصل کرتی، پی ٹی آئی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ کراچی سے چودہ نشستیں جیت جائے گی، صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ کیلئے پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ نہیں تھے ، بلوچستان سے آزاد جیتنے والوں میں

سے چیئرمین سینیٹ بنانے کی تجویز عمران خان نے دی تھی۔ عمران خان کو جس طرح وزیراعظم بنایا جارہا ہے اس کے بعد اپوزیشن کو دباؤ ڈالنا چاہئے،چوہدری سرور نے کہا کہ بھارتی میڈیا ایجنڈے کے تحت پاکستان سے متعلق بے بنیاد خبریں چلاتا ہے، بھارت کے ساتھ لڑائی نہیں اچھے تعلقات چاہتے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، اپوزیشن جو حلقے بولے کھولنے کیلئے تیار ہیں، اگر دھاندلی ہوتی تو ہم حلقے کھولنے کیلئے تیار نہیں ہوتے، عالمی آبزروز نے انتخابات کو شفاف قرار دیا ہے۔ چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کو ن لیگ سے زیادہ ووٹ ملا، پنجاب میں ٹکٹ دیتے ہوئے ہر برادری کا خیال رکھ کر کمبی نیشن بنانا پڑتا ہے، فیصل آباد میں میری مرضی سے ٹکٹ دیئے توہم نے شہر کی چاروں نشستیں جیتیں، ن لیگ نے وہاں دس میں سے صرف دو نشستیں حاصل کیں۔چوہدری سرور نے کہا کہ اپوزیشن پولنگ ایجنٹس کی غیرموجودگی میں ووٹوں کی گنتی کا الزام ثابت کردے تو الیکشن کمیشن کی کوتاہی مان لیں گے، پنجاب میں پی ٹی آئی کو 150ارکان کی حمایت حاصل ہوچکی ہے، سینیٹ میں پی ٹی آئی حکومت کو چیلنج کا سامنا ہوگا،

اپوزیشن کی سینیٹ میں دو تہائی اکثریت ہے جس کی وجہ سے وہاں قانون سازی میں مشکلات کا سامنا ہوگا، اپوزیشن جب چاہے چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد کا ووٹ کرسکتی ہے، صادق سنجرانی کو پیپلزپارٹی نے نامزد کیا تھا اب وہ ان کیخلاف ووٹ کرتی ہے تو اخلاقی طور پر درست نہیں ہوگا، سینیٹ میں پی ٹی آئی کیلئے مشکلات پیدا کی گئیں تو عوام کا ردعمل ان پارٹیوں کیخلاف ہوگا۔ چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ کسی امیدوار کے ایک سے زائد نشستوں پر انتخاب لڑنے پر پابندی ہونی چاہئے، دس سال اقتدار انجوائے کرنے کے بعد انتخابات سے قبل دوسری پارٹی میں جانے والوں کو روکنے کیلئے بیریئر ہونا چاہئے، انتخابات سے قبل پارٹی چھوڑ کر جانے والے کو کسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔محمد بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن نہ مانتے ہوئے الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے، مجھے نہیں پتا چوہدری نثار ہارے ہیں یا ہرائے گئے ہیں، انتخابی حلقے کھولنے کا اختیار عمران خان کے نہیں الیکشن کمیشن کے پاس ہے، ہماری شکایت پی ٹی آئی سے نہیں ان اداروں کے ساتھ ہے جنہوں نے الیکشن کروایا، الیکشن کمیشن نااہلی میں

نمبر ون ثابت ہوا ہے۔ بلیغ الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پورے ملک سے ایک ہی شکایت آرہی ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال دیا گیا، کئی تصویریں آچکی ہیں جس میں پولنگ اسٹاف کونے میں دبکا بیٹھا نظر آرہا ہے، سادہ کاغذوں پر نتائج دینے کے بعد بھی دو سے چار گھنٹے دروازے بند کر کے جو کارروائی ہوئی وہ تشویشناک ہے،الیکشن سے پہلے مختلف جگہوں پر بیلٹ پیپرز سے بھری گاڑیاں پکڑی گئی تھیں، انہی شکایات کی وجہ سے الیکشن پر لوگوں کا اعتماد ختم ہوگیا ہے۔ محمد بلیغ الرحمٰن نے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات میں جوڑ توڑ بھی سب نے دیکھا اور اب جہا زو ں پر جس طرح جوڑ توڑ ہورہا ہے وہ بھی سب دیکھ رہے ہیں، مسلم لیگ ن ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت میں شامل نہیں ہے۔سعید غنی نے کہا کہ انتخابات میں بھرپور طریقے سے دھاندلی کی گئی ہے، دھاندلی نہیں ہوتی تو پیپلز پارٹی زیادہ نشستیں حاصل کرتی، میں جس طرح جیتا صرف میں ہی جانتا ہوں، پی ٹی آئی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ کراچی سے چودہ نشستیں جیت جائے گی، پی ٹی آئی کے امیدوار انتخابات کی شام گھروں کو چلے

گئے انہیں نیند سے اٹھا کر بتایا گیا کہ تم جیت گئے ہو، چند مہینوں میں دھاندلی سے متعلق چیزیں سامنے آجائیں گی، چند دن پہلے کراچی کی کچرا کنڈی میں بیلٹ پیپرز جلائے گئے جن میں کچھ ہمارے ہاتھ لگے، اسی طرح مزید بہت سے حلقوں میں بھی بیلٹ پیپرز باہر نکلے، پیپلز پارٹی کو کراچی میں چھ سے دس نشستوں پر کامیابی ملنے کی توقع تھی، خواجہ سعد رفیق نے حلقہ کھولنے کیلئے کہا تو پی ٹی آئی کے وکیل نے دوبارہ گنتی پر اعتراض کیا،آج تمام پارٹیاں دھاندلی کا شور مچارہی ہیں تو کیسے دھاندلی نہیں ہوئی۔سعید غنی کا کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں نتائج جلدی آجاتے ہیں لیکن کراچی کے نتائج بہت تاخیر سے آنا شروع ہوئے، میں نے اپنے حلقے میں ہر پولنگ اسٹیشن پر سیکڑوں لوگوں کے ساتھ جاکر دباؤ ڈال کر فارم 45 حاصل کیا، ایک پولنگ اسٹیشن پر تو فارم 45دیئے بغیر پولنگ کا سامان پیک کرکے گاڑی میں رکھ دیا گیاتھا۔ سعید غنی کا کہنا تھا کہصادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ کیلئے پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ نہیں تھے ہم نے ان پر اتفاق کیا تھا، پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ کیلئے اپنا امیدوار لانا چاہتی تھی لیکن عمران خان نے حمایت کرنے سے انکار کردیا تھا، عمران خان نے بلوچستان سے آزاد جیتنے والوں میں سے کسی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کی تجویز دی تھی،پیپلز پارٹی دھاندلی سے بننے والی حکومت پر دباؤ ڈالنے کیلئے نکتہ نظر بدلتی ہے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے، موجودہ صورتحال میں سینیٹ میں تبدیلی ہوسکتی ہے تو ہونی چاہئے، عمران خان کو جس طرح وزیراعظم بنایا جارہا ہے اس کے بعد اپوزیشن کو دباؤ ڈالنا چاہئے، سینیٹ میں اپوزیشن کو اپنا آئینی کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہئے۔سعید غنی نے کہا کہ اس وقت جوڑ توڑ صرف جہانگیر ترین کررہے ہیں، کوئی اور جماعت جوڑ توڑ کرتی نظر نہیں آرہی ہے، عمران خان آج جو کام کررہے ہیں ماضی کی ساری باتیں الٹی ہورہی ہیں، عمران خان ایم کیو ایم کے متعلق کیا کچھ نہیں کہتے رہے آج ان کے پاس چلے گئے۔

FOLLOW US