لاہور(ویب ڈیسک)سارے سیٹ اپ (یا اپ سیٹ) میں سوائے عمران خان کے ہر اہم لیڈر بے دست و پا ہے۔ ان کی نااہلی کا وہ کیس ‘جو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دائر کیا تھا‘ اب اس کے لیے ہائی کورٹ کا ڈویژنل بینچ تبدیل کیا گیا ہے
نامور کالم نگار حسنین جمال اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔اور جسٹس شوکت صدیقی اس سے علیحدہ کر دئیے گئے ہیں۔ کیس کچھ اس طرح سے تھا کہ عمران خان نے اپنی بیٹی ٹیریان خان کی ولدیت کے متعلق جھوٹ بولا ہے ‘اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ یکم اگست کو ان سے عدالت نے جواب طلب کیا تھا‘ لیکن فی الحال پورا سین ری کری ایٹ ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ ابھی تک کسی اور کے وزیر اعظم بننے کا چانس کم ہے‘ لہٰذاعمران خان ہی اگلے ممکنہ وزیر اعظم ہوں گے۔ یہاں پیپلز پارٹی کو بھی داد دینا بنتی ہے۔ اس نے ایک جھٹکے سے تمام سیاسی جماعتوں کے اس موقف کو سائیڈ لائن کر دیا تھا کہ مسلم لیگ نواز‘ متحدہ مجلس عمل اور دیگر چھوٹی جماعتیں مل کے مرکز میں حکومت بنانے پہ پھڈا کر دیں۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف بالکل واضح طور پہ یہ رہا کہ دھاندلی کے بدلے دھاندلی نہیں کریں گے‘ یہ شور مچانے کے ساتھ ساتھ کہ الیکشن میں شدید انجینئرنگ ہوئی ہے‘ پھر بھی انہوں نے غلط روایات کا ساتھ نہ دے کر اچھی مثال قائم کی‘ اسمبلیوں میں جانے کے لیے بھی
سب سے پہلے ہاتھ اٹھائے‘ گڈ ہو گیا! سوال یہ ہے کہ ایسی گاندھی گیری کیوں دکھائی جا رہی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دودھ کے جلے کو چھاچھ پیتے ہوئے لازمی پھونک مارنا پڑتی ہے اور سینیٹ کے تجربات سے پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے ‘جو اس وقت بہت کچھ سیکھ کر بیٹھی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ انہیں وہ عمران خان وارے میں ہے‘ جو ان کے ساتھ کبھی اتحاد نہ کرنے کی بات کرتا ہے‘ لیکن وہ دوبارہ کسی سنجرانی ٹائپ تجربے کی بھینٹ چڑھنے سے ڈرتے ہیں۔ چاہے جیسی بھی ہو‘ لیکن ایک پولیٹکل سٹینڈنگ رکھنے والا عمران خان جمہوریت کے لیے ان نادیدہ امیدواروں سے بہت بہتر ہے ‘جو کسی بھی خلا کی صورت میں چاند سے اتر آتے ہیں‘ پیپلز پارٹی یہ جانتی ہے‘ اس لیے کوئی خلا پیدا نہیں ہونے دے رہی۔ نواز لیگ احتجاج کی سیاست میں فی الحال بالکل ٹھس ہے اور اس کی وجہ پہلے دن سے وہی ہے کہ سارا جاتا دیکھیے‘ تو آدھا دیجیے بانٹ‘ وہ اپنی تھوڑی سیٹوں کو کیش کروا کے اچھے موقعے کا انتظار کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ایسا موقع اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کافی لچک دکھانے کے بعد ہی کبھی مل سکتا ہے۔ فی الوقت کوئی ایسا امکان موجود نہیں۔
اگلے الیکشن میں بھی وہ موقع پیپلز پارٹی تو شاید حاصل کر لے‘ نواز شریف اور مریم نواز کے جیل میں ہوتے ہوئے ن لیگ ابھی اس طرح کی کسی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ فی الحال ایک چھوٹی سی بات پر بڑی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے کل عوام کے درمیان وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کی معصوم خواہش ظاہر کی ہے۔خبروں کے مطابق ‘ڈی چوک اور پریڈ گراؤنڈ کا نام بھی زیر غور ہے۔ تحریک ِانصاف کو اب یقین کر لینا چاہیے کہ وہ الیکشن جیت چکی ہے‘ جب یقین آ جائے گا ‘تو وہ یقینا اپنے اس تاریخی بوجھ سے جان چھڑانے کی کوشش میں سنجیدہ بھی ہو سکتی ہے۔ ڈی چوک یا پریڈ گراؤنڈ دھرنے کی یادگاریں ہیں اور دھرنا امپائر کی انگلی‘ اے پی ایس کا حادثہ‘ ریحام خان اور بغیر کسی مقصد کے ختم ہو جانے سمیت بعد میں ہونے والے مذہبی جماعتوں کے دھرنوں کی یاد بھی دلاتا ہے۔ جمہوری وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کے لیے عمران خان کو یقینی طور پہ کسی ایسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے‘ جو ان کی جماعت اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے کچھ اچھی اور نیک شہرت رکھتی ہو۔
وہ جگہ کوئی بھی اور ہو سکتی ہے‘ لیکن ڈی چوک اور پریڈ گراؤنڈ‘ ہرگز نہیں! عمران خان خود اپنے لیے مسائل پیدا کرنے میں مشہور ہیں اور پھر نادیدہ ہاتھ بہرحال انہیں باہر بھی کھینچ لیتے ہیں‘ لیکن ایک منتخب وزیر اعظم بننے کے بعد زیادہ دیر تک ایسا نہیں چلے گا۔ آج الیکشن کمیشن کے سامنے ان کے وکیل کی پیشی تھی کہ اپنے ووٹ دینے کی ویڈیو عمران خان نے کیوں بنائی اور بنا لی تھی‘ تو اسے پبلک کیوں کیا؟ تحریری جواب مانگا گیا ہے۔ امکانات کافی زیادہ ہیں کہ وہ ایک آدھی تنبیہ کے ساتھ چھوٹ جائیں گے‘ لیکن یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں بحیثیت ِوزیر اعظم کوئی بھی متنازعہ فیصلہ کرتے ہی ان کے گلے میں فوراً لٹکا دی جائیں گی‘ ڈی چوک اور پریڈ گراؤنڈ کی یادگار بھی ایک ایسی ہی چیز ہے۔ دھرنے بہرحال کبھی کسی کے نہیں ہوتے اور چاہے دھرنا دینے والی مذہبی جماعت صرف سندھ سے ایک دو سیٹیں لے پائی ہو‘ اسے جب بھی چارج کیا جائے گا‘ وہ اپنے مقاصد کے حصول تک پوری فارم میں رہے گی‘ یہ عمران خان اور تحریک ِانصاف کو معلوم ہونا چاہیے‘ اسی لیے مکرر درخواست ہے کہ ایک جمہوری عہدے کا حلف اٹھانے کے لیے
کوئی بھی ایسی جگہ منتخب نہ کی جائے‘ جس سے ایجیٹیشن کی لائن مضبوط ہوتی ہو اور پارلیمینٹ کی مضبوطی کا تاثر کم ہوتا ہو۔ کہا جا رہا ہے کہ بھٹو صاحب نے بھی چودہ اگست کو عوامی طور پہ حلف اٹھایا تھا اور عمران خان بھی اسی تاریخ پہ اسی انداز سے یہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ اچھی بات ہے‘ ضرور کریں‘ لیکن یاد رکھیں کہ ایک واضح ترین مینڈیٹ اور فل چارج قسم کے جیالے رکھنے والے وزیر اعظم بھٹو بھی اپنی باریک غلطیوں کے نتیجے میں ہی ایسے شکنجے کی گرفت میں آئے ‘جس سے بچ نکلنا ان کے لیے محال ہو گیا اور بالآخر جان دے کر انہیں اس سب کا کفارہ ادا کرنا پڑا۔ عمران خان عوامی آدمی ہیں‘ بھٹو کے بعد واحد شخصیت ہیں جو نوجوانوں کے لیے ویسا ہی سحر رکھتی ہے‘ لیکن عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اب وہ ایک قیمتی علامت بن چکے ہیں۔ انہیں اس جمہوری عمل کو آگے بڑھانا ہے‘ نہ کہ ایسے چھوٹے موٹے چکروں میں پڑ کے اپنی راہ میں نئے روڑے سجانے ہیں۔ اینڈ آف دی ڈے یہ شعبدے بازیاں کسی کو یاد نہیں رہتیں‘ یہ صرف وقتی سیلیبریشن کی خواہش ہے‘ اس سے پرہیز بہت مناسب ہو گا۔
ایک زندہ بھٹو بہرحال ملک کے لیے بہتر ہوتا‘ ایک زندہ بے نظیر اگر ہوتی‘ تو شاید ملکی حالات اس موڑ تک نہ پہنچ پاتے‘ لیکن اب‘ جو بھی ہے‘ جیسا بھی ہے‘ عمران خان فی الحال جمہوری عمل کے رواں رہنے کا‘ اس کے تسلسل کا نام ہے۔ تحریک ِانصاف کو بہت سنبھل کر اور بہت زیادہ محتاط ہو کے یہ عمل آگے بڑھانا ہے‘ چنگی بھلی اکثریت ہلکے کاموں میں آڑا دینا بند کر دی جائے ‘تو بہت افضل ہو گا۔ پرسوں صبح تنویر جہاں یہ شبہ ظاہر کر رہی تھیں کہ چھ ماہ بعد ہم سب عمران خان کے ساتھ بھی ویسے ہی کھڑے ہوں گے ‘جیسے نواز شریف کے ساتھ کھڑے تھے‘ فقیر نے صاد کیا۔ ذاتی رائے پوچھی جائے تو چار ماہ بھی اس گمان کو یقین میں بدلنے کے لیے بہت کافی ہیں۔ عمران خان بین الاقوامی طور پر پہلے سے ہی کافی مشہور ہیں‘ موجودہ جیت ان کے اس اعتماد میں شدید اضافہ بھی کرے گی۔ ابھی ان کے سامنے پرویز مشرف والا مقدمہ آئے گا‘ نواز شریف کی سزا سے متعلق فیصلے کرنا ہوں گے‘ خارجہ پالیسی میں وہ اپنی مرضی چلانے کی کوشش کریں گے‘ جیسا کہ آج اعلان ہوا‘ افغانستان جانے کی دعوت وہ قبول کر چکے ہیں‘
آف کورس وہ ادھر جا کے کوئی پرچی شرچی پہ لکھی چیزیں تو پڑھنے کی کوشش کریں گے نہیں‘ ادھرہی سے سارا رپھڑ شروع ہو گا اور تین چار ماہ کے اندر موسٹ لائکلی وہ اس قطار میں شامل ہوں گے‘ جہاں نواز شریف اور زرداری پہلے سے موجود ہیں۔ مسئلہ یہ کہ جمہوری لیڈر جو بھی ‘غلطی‘ کرے‘ وہ بہرحال پارلیمان اور عوام کے حق رائے دہی کا چلتا پھرتا نمائندہ ہوتا ہے‘ وقار ہوتا ہے اور جب کسی بھی جمہوری لانجھے میں اس کا پاؤں الجھتا ہے‘ تو ہر باشعور شہری اسے تھامنے کی کوشش کرتا ہے۔ خدا نہ کرے ایسا ہو‘ خدا کرے ان کی رائڈ ایسی ہو‘ جیسے مکھن سے بال کا پھسلنا ‘لیکن ‘ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘ فی الوقت ایسے الجھے ہوئے جمہوری ریشم میں ہاتھ پھنس چکے ہیں کہ کسی ایک طرف سے بھی سب اچھے کی رپورٹ نہیں ۔ ہر اگلی خبر پچھلی آنے والی خبروں سے زیادہ الارمنگ چل رہی ہے‘ اگر محسوس کیا جائے۔ مکرر دست بستہ گذارش ہے کہ چمک دکھانے کی بجائے سنجیدہ جوڑ توڑ پہ دھیان دیا جائے‘ تاریخ ایسا موقع بار بار نہیں دیتی‘ جو آج ساتھ ہیں بہت جلد ان کا ساتھ چھوٹ جانا ہے‘ کچھ کر لو نوجوانو‘ اٹھتی جوانیاں ہیں!