معروف صحافی و رائٹر ابوذر کے مطابق اس الیکشن میں کراچی کی اہمیت ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہے، اس بار شہر سے بڑےبڑے نام انتخابی میدان میں اتر رہے ہیں اور تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی توجہ کراچی پر ہے۔وزارت عظمٰی کے تین ممکنہ امیدوار تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان، پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ ن کے
صدر شہباز شریف کراچی سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔یہی نہیں کراچی اس وقت وہ واحد شہر ہے، جہاں سے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ انتخابی میدان میں اترے ہیں، اب دیکھنا ہے کہ کراچی کس کو منتخب کرتاہے۔ماضی میں کراچی کے انتخابات میں ایم کیو ایم سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آتی رہی ہے لیکن اس بار سیاسی منظر کچھ مختلف ہے۔کراچی کے کئی حلقوں میں بڑے ٹاکرے ہونے والے ہیں کیونکہ اس بار یہاں روایتی نتائج سے ہٹ کر نتائج آنے کی توقع ہے، 30 سال میں جو نتائج آتے رہے ہیں، وہ شاید اب نہیں آئیں گے۔ماضی میں 1988 سے 2013 تک کراچی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی زیادہ تر نشستوں پر ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں۔مگر اب صورتحال مختلف ہے، ایم کیو ایم اس وقت تقسیم کا شکار ہے اور شہر میں اس کا ووٹ بینک تقسیم ہوا ہے۔ایم کیوایم سے ہی کٹ کر الگ ہوکر وجود میں آنے والی پاک سرزمین پارٹی بھی میدان میں ہے۔پیپلز پارٹی بھی بھرپور تیاری سے مقابلے پر ہے جبکہ پی ٹی آئی بھی ایم کیو ایم کی تقسیم سے فائدہ اٹھانے کیلئے پرامید ہے۔ن لیگ اور ایم ایم اے بھی کراچی میں اس نئی صورتحال میں اپنی جگہ بنانے کیلئے تیار نظر آرہی ہیں۔ یوں کہیں کہ اس مرتبہ سب کی نظریں کراچی پر لگی ہوئی ہیں۔کراچی سے قومی اسمبلی کی 21نشستیں ہیں، جن میں سے تین نشستیں اس وقت مرکز نگاہ ہیں۔ان میں این اے 243 جہاں سے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان الیکشن لڑ رہے ہیں، ان کے مد مقابل ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ شہلا رضا جبکہ تقسیم کی شکار ایم کیوایم سے علی رضا عابدی عمران خان کو شکست دینے کےعزم سےالیکشن لڑ رہے ہیں۔اس حلقے سے ماضی میں ایم کیوایم کا امیدوار کامیاب ہوتا رہا ہے مگر اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے۔تمام جماعتوں نے یہاں بھرپور انتخابی مہم چلائی اب 25 جولائی کو این اے 243 کو ووٹر کسے چنتا ہے، اس مرتبہ یہ کہنا آسان نہیں۔کراچی میں سب سے دلچسپ حلقہ این اے 249 ہے اور یہاں دلچسپی کا پہلو اس لیے ہے کہ یہاں سے پہلی مرتبہ ن لیگ کے سربراہ شہباز شریف انتخاب لڑ رہے ہیں، یہ ان کا کراچی سے یہ پہلا الیکشن ہے۔ان کا مقابلہ کرنے کیلئے تحریک انصاف کے فیصل واؤڈا بھی اسی حلقے سے میدان میں اترے ہیں اور علاقے میں بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔اس حلقے سے دیگر امیدواروں میں پاک سر زمین کے وسیم آفتاب، متحدہ مجلس عمل کے عطاء اللہ شاہ، پیپلز پارٹی سے قادر خان مندوخیل شامل ہیں۔ ایم کیوایم نے یہاں سے اسلم شاہ کو ٹکٹ دیا ہے۔این اے 249 سے گزشتہ تین الیکشن میں ایم کیو ایم کامیاب ہوتی رہی ہے مگر اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے۔ایم کیو ایم کا ووٹ یہاں تقسیم ہے جبکہ پہلی مرتبہ کراچی سے یہاں شہبازشریف میدان میں ہیں، اس لئے اس مرتبہ این اے 249 کےحلقے کے انتخابی نتائج بھی دلچسپ ہوں گے۔اس کے علاوہ کراچی کا حلقہ این اے246 بھی دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے اور اس دلچسپی کی وجہ بلاول بھٹو زرداری کا پہلا الیکشن ہے۔این اے 246 لیاری کے مختلف علاقوں پر مشتمل حلقہ ہے، بلاول بھٹو نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز بھی لیاری سے ہی کیا تھا جہاں انہیں لیاری والوں کی جانب سے احتجاج کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔یہ حلقہ اہم اس لیے ہے کہ یہاں سے پیپلزپارٹی ہمیشہ کامیاب ہوتی رہی ہے، 1985 کے غیر جماعتی
انتخابات کے علاوہ پیپلز پارٹی یہاں سے ہر بار کامیاب ہوتی رہی ہے۔بے نظیر بھٹو نے یہاں سے الیکشن جیتا، آصف زرداری بھی یہاں سے کامیاب رہے مگر لیاری والوں کا شکوہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے لیاری سے انتخابات جیتنے کے باوجود لیاری کیلئے کچھ نہیں کیا۔لیکن ان تمام شکوؤں کے باوجود لیاری کی عوام کی محبت اب بھی پیپلزپارٹی اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہے اس لئے بلاول بھٹو کو لیاری سے کوئی بڑی مشکل پیش آتی نظر نہیں آرہی۔الیکشن 2018: سندھ میں پی پی پی کی پوزیشن مضبوط مگر کیا فتح واقعی آسان ہوگی؟دوسرا یہ کہ ن لیگ نے سلیم ضیاء کو یہاں سے ٹکٹ دیا ہے جبکہ پی ٹی آئی اور پاک سرزمین پارٹی نے بھی اپنے ایسے امیدوار اتارے ہیں جو این اے246 میں بلاول کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتے۔این اے 246 کے بعد آتا ہےحلقہ این اے 247۔ یہ حلقہ ڈیفنس کلفٹن اور صدر کے علاقے پرمشتمل ہے۔این اے 243 کی طرح اس حلقے میں بھی تمام ہی سیاسی جماعتیں جیت کیلئے بھرپور زور لگارہی ہیں۔اس حلقے سے قسمت آزامائی کرنے والوں میں اہم نام شامل ہیں ایم کیوایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی، پاک سرزمین پارٹی کی فوزیہ قصوری، ایم ایم اے کے امیدوار محمد حسین محنتی، پیپلزپارٹی سے عزیز میمن، ن لیگ کے سینیٹر مشاہد اللہ خان کے بیٹے عفنان اللہ خان اور سماجی کارکن جبران ناصر بھی اسی حلقے سےآمنے سامنے ہوں گے۔2013 میں یہ حلقہ این اے 250 تھا ،اور یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کامیاب ہوئے تھے۔یہ قومی اسمبلی کی وہ واحد نشست تھی جو تحریک انصاف نے سندھ سے جیتی تھی جبکہ
2008 میں ایم کیو ایم اور 2002 میں متحدہ مجلس عمل اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے۔کراچی شہر کا ایک اور الیکشن بہت دلچسپ اور مزیدار ہوگا۔ وہ الیکشن ہوگا حلقہ این اے 245 کا ،کیونکہ یہاں سے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کے مقابلے پر ان کے پرانے ساتھی اور نئے سیاسی حریف عامر لیاقت حسین تحریک انصاف کی طرف سے ان کے مدمقابل ہیں۔ان دونوں کے مقابلے پر پاک سرزمین پارٹی نے این اے245 سے ڈاکٹر صغیر احمد کو میدان میں اتارا ہے۔25 جولائی کو این اے 245 کا نتیجہ جو بھی ہو، ایک بات یقینی ہے کہ ہوگا بہت دلچسپ۔ یہاں سے ماضی میں ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں مگر اب ایم کیو ایم کا ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ ہے اور ماضی کے ایم کیو ایم کے ہی دو رہنما آپس میں مد مقابل ہیں۔ایم کیو ایم سے علیحدہ ہوکر اپنی نئی شناخت بنانے والی پہلی بار
پاک سر زمین پارٹی جو پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، اس کے سربراہ مصطفٰی کمال کراچی کے حلقہ این اے 253 سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ماضی میں اس حلقے سے ایم کیو ایم کے امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں مگر اس مرتبہ مصطفیٰ کمال کی موجودگی اور ان کے سامنے ایم کیوایم کے اسامہ قادری کی موجودگی، اس حلقے کے انتخابی نتیجے کی طرف سب کی توجہ کھینچ رہی ہے۔پی ایس پی اور ایم کیوایم کے علاوہ این اے253 سے پیپلز پارٹی نے امجد اللہ خان کو اتارا ہے جو پہلے پی ٹی آئی سے ایم کیوایم میں آئے،پھر سیاست سے کنارہ کش ہوئے اور اب سیاسی میدان میں واپسی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر کررہے ہیں۔ماضی میں کراچی سے ایم کیوایم کے مضبوط حلقوں میں سے شامل ایک اور حلقہ این اے 244 بھی شامل ہے مگر اس مرتبہ اس حلقے میں توجہ کا مرکز بناے ہوئے ہیں۔مسلم لیگ ن کے امیدوار مفتاح اسماعیل، ان کے مقابلے پر ہیں متحدہ قومی موومنٹ کے رؤف
صدیقی، پاکستان تحریک انصاف سے سید علی حیدر زیدی مرکزی امیدواروں میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ بھی کراچی کے دیگرحلقوں میں اہم مقابلوں کی توقع ہے کیوں کہ اس بار کراچی سے کچھ نیا ہونے جارہا ہے۔ایم کیو ایم کی سیاسی پوزیشن ماضی جیسی نہیں ہے، 2013 میں کراچی سے قومی اسمبلی کی 20 نشستوں میں سے 17پر ایم کیو ایم کامیاب ہوئی ،تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو کراچی سے قومی اسمبلی کی ایک ایک سیٹ ملی تھی۔مگر اس مرتبہ کراچی کا سیاسی منظر نامہ ماضی سے بالکل مختلف ہے اس لئے اس مرتبہ غیر متوقع نتائج آنے کا قوی امکان بھی ہے۔کراچی سے اس بار قومی اسمبلی کی 21نشستوں پرکس جماعت کو اکثریت ملے گی کس جماعت کے حصے میں کتنی نشستیں آسکتی ہیں یہ اندازہ لگانا ماضی کی نسبت اس مرتبہ آسان نہیں۔