Friday November 8, 2024

بڑا سیاسی دھماکہ: 61 ایم این ایز کا انتخابات 2018 سے قبل (ن) لیگ کو کمر توڑ جھٹکا، چپکے سے بڑی کارروائی ڈال دی

اسلام آباد (ویب ڈیسک) 2013 کی قومی اسمبلی کے 43فیصد سے زائد (272میں سے115) ارکان ایسے ہیں جنہوں نے یا تو اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کر لی ہے یا پھر وہ 2018کے الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور قسمت آزما رہے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ کے 54فیصد (115میں سے61)سابق ارکان قومی اسمبلی یا تو پارٹی چھوڑ گئے ہیں یا،

پھر وہ آزاد امیدوار کے طور الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں یا سرے سے الیکشن ہی نہیں لڑ رہے ۔یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو الیکشن2018 آپریشنز کو برا راست دیکھنے والے سرکاری اداروں سے حاصل کیے گئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے12فیصد (115میں سے14) سابق ارکان قومی اسمبلی ایسے ہیں جنہوں نے پارٹی چھوڑ دی ہے ، آزاد امیدوار کے طور الیکشن لڑ رہے ہیں یا پھر وہ الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے رہے جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے تو اس کے 10فیصد(115میں سے12ارکان ) نے یا تو پارٹی کو خیر باد کہہ دیا ہے یا پھر الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، تحریک انصاف کے صرف5فیصد (115میں سے6) ارکان نے پارٹی چھوڑی ہے۔ دیگر 22ارکان کا تعلق مسلم لیگ ق، جماعت اسلامی، نیشنل پیپلز پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام ( ف) آل پاکستان مسلم لیگ، پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور عوامی جمہوری اتحاد پاکستان سے ہے۔48 فیصد (115میں سے55) ایم این ایز کا تعلق پنجاب سے ہے،25فیصد (115میں سے28) کا تعلق سندھ سے ہے،خیبر پختون خوا کے 11فیصد(115میں سے13) ارکان اسمبلی نے یا تو اپنی پارٹی تبدیل کی یا پھر وہ الیکشن نہیں لڑے رہے۔ بلوچستان کے 80فیصد (15 میں سے12 ) سابق ارکان قومی اسمبلی نے یا تو اپنی پارٹی چھوڑ دی ہے یا،

پھر وہ الیکشن نہیں لڑ رہے۔فا ٹا کے 64فیصد(11میں سے7 ) ارکان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی وابستگی کو بدل دیا ہے۔ قومی اسمبلی کا 59سابق ارکان اسمبلی نے اب کی بار قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تا ہم ان میں نصف درج کے لگ بھگ مختلف صوبائی اسمبلیوں کےالیکشن میں ضرور حصہ لے رہے ہیں ۔ 23سابق ارکان قومی اسمبلی ایسے ہیں جنہوں نے اپنی پارٹیوں کو خدا حافظ کہہ دیا ہے اور اب آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں ، پانچ سابق ایم این ایز جن میں نواز شریف ، کیپٹن صفدر، دانیال عزیز، رانا زاہد حسین اور رائے حسن نواز شامل ہیں ، انہیں سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا ہے اس لیے وہ الیکشن نہیں لڑ سکیں گے، جب کہ ایم این اے عبد الرحیم مندو خیل کا انتقال ہو گیا ہے ، پنجاب کے ارکان قومی اسمبلی کی اکثریت(55میں سے53 ) جو الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی یا پھر اس نے سیاسی وفاداریاں تبدیل کر لی ہیں ، ان کا تعلق ن لیگ سے ہے۔ یہ وہ پارٹی ہے جو اپنی قیادت کی عدالت کی طرف سے پانامہ لیکس مقدمے میں نا اہلی کے بعد شدید دبائو میں ہے۔پنجاب میں پیپلزپارٹی اور،

پاکستان مسلم لیگ ق کے ایک ایک سابق ایم پی اے نے اپنی وفاداریاں تبدیل کیں،29سابق ایم این ایز نے انتخابات سے دوہفتے قبل پارٹیاں تبدیل کیں،مخصوص نشستوںپر 27فیصد 115)میں سے 31 )سابق خاتوں ایم این ایز کواپنی پارٹیوں نے منتخب نہیں کیا،پس جنرل مخصوص نشستوں پر 52فیصد(60میں سے31)خواتین کو اس سال ٹکٹ نہیں دئیے گئے،مسلم لیگ کی 22اور2013ء میں اقلیتی کوٹہ پر منتخب ہونیوالی 10میں سے6سابق خواتین ایم این ایز کوبھی 2018ء میں مخصوص نشستوں پر نامزدہی نہیں کیاگیا،اسی طرح مجموعی طورپر ایسے خواتین ایم این ایز کی تعداد 342میں سے151 ہوگئی ہے جنہوں نے یاتوپارٹیاں تبدیل کیں، انتخابی دوڑ میں شامل نہیں ہیں،یاآزاد حیثیت سے الیکشن لڑرہی ہیں،پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے جے یو آئی کی 4سابق منتخب خواتین ایم این ایز نے سیاست ہی چھوڑدی ہے،جماعت اسلامی کے سابق رکن قومی اسمبلی شیراکبرخان نے بھی پارٹی چھوڑی اور اب پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کاالیکشن لڑرہے ہیں،15میں سےبلوچستان سے تعلق رکھنے والے صرف 3سابق ایم این ایز پختو نخوامیپ کے محمد اچکزئی،مسلم لیگ ن کے عبدالقادربلوچ اور جے ئوآئی (ف) کے امیرزمان نے پارٹی سے وفاداری برقراررکھی، دستیاب اعدادوشمارکے مطابق 6سابق ایم این ایز انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں اور،

باقی نے پی ٹی آئی اور بی اے پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔عوامی جمہوری اتحاد پاکستان کے رہنماء شہرام خان ترکئی نے عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے اہنی پارٹی تحریک انصاف میں ضم کی ،سردار محمد یوسف بھی قومی اسمبلی کاالیکشن نہیں لڑرہے ہیں اور انکی جگہ انکے بیٹے شاہجہان یوسف نے مانسہرہ کی قومی اسمبلی نشست پرکاغذات جمع کرائے ہیں ،سابق وفاقی وزیر زاہد حامد کے سیاست کوخیربادکہنے کے بعد ان کا بیٹا علی زاہدسیالکوٹ سے انتخابات میں حصہ لے رہا ہے،خوشاب سے عزیر ملک بھی انتخابی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں کیونکہ انکی والدہ سمیراملک انتخابات لڑرہی ہیں۔ گوجرانوالہ سے نثار چیمہ بھی اپنے بھائی سابق ایم این اے افتخارچیمہ کی جگہ میدان میں ہے،عائشہ گلالئی نے تحریک انصاف کوخیربادکہتے ہوئے اپنی جماعت پی ٹی آئی گلالئی بنائی،وہ بھی الیکشن لڑرہی ہیں،مرتضیٰ جتوئی جنہوں نے اپنی جماعت نیشنل پیپلزپارٹی کوکبھی مسلم لیگ میں ضم کیاتھا ، اب سندھ میں جی ڈی اے کیساتھ اتحادکرلیاہے،گزشتہ قومی اسمبلی میں اہم کرداراداکرنیوالی تقریباًایک درجن ایم این ایز حالیہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی ہیںان میں سابق وزیراعظم نوازشریف،دانیال عزیز،زاہد حامد،کیپٹن(ر) صفدر،ستار بچانی،علی گوہر،طاہر بشیر، غلام ربانی کھر،نجف سیال،جاوید ہاشمی،رائے حسن نواز،سردار یوسف،عزیر ملک،افتخار چیمہ اور دیگر شامل ہیں،چودھری خادم رواں سال انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں ،

جبکہ انکی جگہ ان کابیٹا چودھری ندیم خادم پی ایم ایل این کی ٹکٹ پر جہلم سے قومی اسمبلی کاالیکشن لڑرہا ہے29 میں سے 16ایم این ایز جو اس سے قبل ن لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات جیت چکے تھے اب پنجاب سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ظفرذوالقرنین ساہی پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈررہے ہیں جبکہ انکے والد کرنل( ر) غلام رسول ساہی اس دفعہ الیکشن نہیں لڑرہے۔علی گوہر بلوچ اس دفعہ اپنے والد رجب علی بلوچ کی جگہ فیصل آباد سے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ طاہر بشیر چیمہ انتخاب میں حصہ نہیں لے رہے جبکہ انکی صاحبزادی فاطمہ بشیر بہاولپور سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔مظفرگڑھ، پاک پتن،،چنیوٹ اور جھنگ سے تعلق رکھنے والے وہ تمام افراد جو قبل ازیںمسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے انہوں نے اپنی وفاداری تبدیل کی ہے یا اس دفعہ انتخاب نہیں لڑ رہے ہیں۔اسی طرح پیپلز پارٹی کے وہ ایم این اے جو بدین، ٹھٹھہ،گھوٹکی اور نوشہرو فیروز سے منتخب ہوئے، انہوں نے پارٹی وفاداری تبدیل کی، یا انتخاب نہیں لڑ رہے، ن لیگ کے وہ ایم این ایز جو پہلے ننکانہ صاحب ، لیہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور شیخو پورہ سے منتخب ہوئے تھے ، انہوں نے اپنی پارٹی وفاداری تبدیل نہیں کی۔

FOLLOW US