Thursday November 14, 2024

انتخابی دنگل میں تحریک انصاف کو بڑی کامیابی ،ایسا کام کر دیا کہ تخت لاہور سے (ن) لیگ کا مکمل صفایا ہو گیا

لاہور (ویب ڈیسک) عام انتخابات 2018ء میں دو روز ہی باقی ہیں جس کے پیش نظرملک بھر میں سیاسی پارہ چڑھ چکا ہے ۔ الیکشن کے نتائج آنے سے قبل ہی لاہور کی عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، پی ٹی آئی اپنے کارکنان کو متحرک کرنے میں کامیاب جبکہ مسلم لیگ ن اپنے

کارکنان کو متحرک کرنے میں ناکام ہو گئی جس کی وجہ سے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو دھچکا لگنے کا قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے کارکنان اور ووٹرز میں مایوسی پھیل گئی۔پی ٹی آئی نے لاہور میں بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا جبکہ مسلم لیگ ن لاہور میں کوئی بھی سیاسی شو کرنے میں ناکام رہی۔ ن لیگی کارکنوں نےقیادت کو خطوط لکھے جس کے بعد لیگی قیادت نے انتخابی مہم کے آخری روز لاہور میں جلسے کا پروگرام تو دے دیا ہے لیکن قیادت ابھی تک کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے وہ جذبہ پیدا نہیں کر سکی جو ہر مرتبہ انتخابات میں ان کے کارکنوں میں ہوتا تھا۔کئی لیگی اُمیدواروں نے تو قیادت سے شکوہ کرتے ہوئے صاف کہہ دیا ہے کہ لاہور جو کہ ہمارا گڑھ تھا وہ تک ہم سے نہیں سنبھالا جا رہا اور قیات اس بات کا نظر انداز کر کے دوسرے علاقوں میں جلسے کر رہی ہے ۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق اب تک لاہور کے صرف تین حلقوں این اے 131،،135اور136میںن لیگ کے دفاتر اور انتخابی مہم کچھ بہتر نظر آ رہی ہے ۔جبکہ باقی حلقوں میں اگر10انتخابی دفتر تحریک انصاف کے ہیں تو 3 دفتر ن لیگ کے ہیں

اور2 دفتر تحریک لبیک جبکہ متحدہ مجلس عمل اور پیپلز پارٹی کے دفاترا ور انتخابی مہم تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے ۔ذرائع نے بتایا کہ ایسا پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن ، جو ہر مرتبہ انتخابات میں 3 روز قبل ہی ووٹرز میں ووٹ کی پرچیاں تقسیم کر دیتی تھی ، کی جانب سے تاحال یہ عمل بعض حلقوں میں شروع تک نہیں ہو سکا ۔۔ن لیگ کے ساتھ پرچیوں کی تقسیم کے حوالے سے دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی یہی حال ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق صرف 2 سیاسی جماعتوں تحریک انصاف اور ن لیگ کے پولنگ ایجنٹس مکمل ہیں، باقی تمام سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹ تاحال مکمل ہوئے ہیں اور نہ ہی پولنگ سٹیشنز کے باہر پرچی بنانے والے گروپس کی تشکیل ہوئی ہے ۔اسی طرح پہلی مرتبہ لاہور میں ہر حلقہ میں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سخت ترین مقابلہ دیکھنے میں آئے گا اور یہ ٹھیک ایسی ہی صورتحال بن چکی ہے جیسے 1988ء میں لاہور میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان دیکھنے کو ملتی تھی۔۔عمران خان کے لاہور میں کامیاب طوفانی دوروں کے بعد پی ٹی آئی کے کارکن پہلے سے بھی زیادہ متحرک ہو گئے ہیں جس کے مقابلہ میں ن لیگ نے لاہور میں اپنے آخری جلسہ کے لیے ٹکٹ ہولڈرز کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے بلدیاتی چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کو ٹاسک سونپ دیا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے اس آخری جلسے میں زیادہ سے زیادہ کارکن لے کر موچی دروازے پر پہنچیں۔دوسری جانب پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان اپنی انتخابی مہم کا آخری جلسہ اپنے حلقہ این اے 131میں کر رہے ہیں

FOLLOW US