اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ماضی کی فلمی اداکارہ شبنم کے ساتھ ہوئے ظلم سے گزشتہ دنوں اس وقت پردہ اٹھ گیا جب کہ گزشتہ دنوں خوشاب سے تعلق رکھنے والے فاروق بندیال کو عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف میں شامل کر لیا لیکن سوشل میڈیا پر عوام کی تنقید اور پارٹی کارکنوں کی مخالف کے باعث فاروق بندیال کو پارٹی سے 24گھنٹوں بعد ہی الگ
کر دیا گیا ۔ ملک کے معروف صحافی اور تجزیہ کار جاوید چودھری نے ماضی کی فلمی اداکارہ سے پیش آئے اندوہناک واقعے کی تفصیلات کو ایک کالم کی صورت میں قلمبند کیا ہے ۔ جاوید چودھری لکھتے ہیں کہ شبنم گلبرگ لاہور میں رہتی تھی‘سینکڑوں لوگ سارا سارا دن جھلک دیکھنے کےلئے اس کے گھر کے سامنے کھڑے رہتے تھے لیکن پھر 12فروری 1978ءکو پانچ لوگ شبنم کے گھر میں داخل ہوئے اور اس کا کیریئراور شخصیت دونوں تباہ ہو گئے‘ وہ لوگ شام سے گھر کے سامنے منڈلا رہے تھے‘ وہ پوری رات ماحول کا اندازہ کرتے رہے اور صبح چار بجے جب پورا گلبرگ گہرے کہرے میں گم تھا‘ یہ لوگ شبنم کے گھر میں داخل ہو گئے‘ ملزموں نے شبنم‘ روبن گھوش اور رونی گھوش کو اکٹھا کیا‘ ان کے سر پر پستول رکھا اور پانچ لاکھ روپے طلب کئے‘ ملزموں نے رقم نہ ملنے کی صورت میں رونی گھوش کو اغواءکرنے کی دھمکی دے دی‘ یہاں سے اب دو ”ورژن“ سامنے آتے ہیں‘شبنم‘ روبن گھوش اور ان کے وکیل ایس ایم ظفر کا کہنا ہے ”یہ لوگ بگڑے ہوئے رئیس زادے تھے‘ یہ صرف رقم لینے کےلئے گھر داخل ہوئے تھے‘ رقم لی اور چپ چاپ واپس چلے گئے“ جبکہ فلم انڈسٹری اور اخبار نویسوں نے دعویٰ کیا ملزمان نے روبن گھوش اور رونی گھوش کے سامنے شبنم کا گینگ ریپ کیا لیکن شبنم کی طرف سے ریپ کا الزام لگایا گیا اور نہ ہی یہ ایشو کیس میں کسی جگہ اٹھایا گیا تاہم کیس کے بڑے عرصے بعد ملزم اپنی
نجی محفلوں میں ریپ کی ڈینگ مارتے رہے‘میں 1990ءمیں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتا تھا وہاں میری شبنم ڈکیتی کیس کے ایک ملزم کے ساتھ ملاقات ہوئی‘ اس نے بڑے فخر کے ساتھ واردات کی تفصیل بیان کی‘ اس کا کہنا تھا ”شبنم کا رنگ کالا سیاہ اور جسم بدصورت تھا‘ ہم نے شروع میں شبنم کو نہیں پہچانا ‘ ہم اسے گھر کی ملازمہ سمجھتے رہے اور اسے شبنم کو بلانے کا حکم دیتے رہے“۔ اس نے اس کے بعد واردات کی جو تفصیل بیان کی وہ ناقابل بیان بھی ہے اور ناقابل سماعت بھی‘ میں بہرحال کیس کی طرف واپس آتا ہوں۔شبنم نے 13 فروری 1978ءکو ایف آئی آر درج کرا دی‘ یہ خبر نکلی تو پورے ملک میں پھیل گئی‘ ملک میں تازہ تازہ مارشل لاءلگا تھا‘ جنرل ضیاءالحق بھی شبنم کے فین تھے چنانچہ پولیس پر دباؤ آیا اور پولیس نے 36 گھنٹوں میں ملزمان گرفتار کر لئے‘ ملزمان کا سرغنہ فاروق بندیال تھا جبکہ باقی ملزم وسیم یعقوب بٹ‘ طاہر تنویر‘ جمیل احمد چٹھہ اور اکبر ساہی تھے‘ یہ تمام ملزم پنجاب کے خوش حال اور بااثر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے
اور یہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے تھے‘سرغنہ فاروق بندیال خوشاب کی تگڑی زمین دار فیملی سے تعلق رکھتا تھا‘یہ گاؤں بندیال کا رہنے والا تھا‘ اس کے ماموں ایف کے بندیال اس وقت چیف سیکرٹری تھے‘ ملزم گرفتار ہو گئے لیکن پولیس اور شبنم کا خاندان شدید دباؤ میں آ گیا‘ ہمارے سینئر بتایا کرتے تھے چیف سیکرٹری کے پریشر کی وجہ سے آبروریزی کا الزام دبا دیا گیا‘ شبنم بھی اس معاملے میں خاموش تھی‘ میں نے تین دن پہلے شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر کو فون کیا‘ شاہ صاحب کا کہنا تھا ”کیس میں کسی جگہ آبروریزی کاالزام نہیں تھا‘شبنم نے میرے بار بار پوچھنے پر بھی مجھے نہیں بتایا‘ پولیس کو بھی تفتیش کے دوران اس قسم کا کوئی اشارہ نہیں ملا‘ شبنم نے میڈیکل ٹیسٹ بھی نہیں کرایا تھا چنانچہ یہ الزام غلط ہے“ حکومت نے ملزموں کی گرفتاری کے بعد سپیشل فوجی عدالت بنادی‘ ملزم عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور عدالت نے انہیں سزائے موت سنا دی‘ سزا کے چند ہفتے بعد شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر نے جنرل ضیاءالحق کو خط لکھا اور ملزمان کی سزا معاف کرنے کی درخواست کی‘