اسلام آباد: وفاقی حکومت نے چند دنوں کے فرق سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر ہوشربا اضافہ کرتے ہوئے خود کو عوام کا وہ ’’خادم‘‘ ثابت کیا ہے جو عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کررہا ہے۔پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام جہاں ایک طرف کھانے پینے کی روزہ مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہیں وہاں پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے ان پر وہ بوجھ پڑے گا جس کی تاریخ میں پہلے کبھی مثال نہیں ملتی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ قیمتیں صرف عوام کیلئے بڑھائی جا رہی ہیں یا ملک کے فائدے کیلئے؟ اگر یہ قیمتیں ملکی معیشت پر سبسڈی کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے بڑھائی گئی ہیں
پیٹرول قیمتوں میں اضافے پر عوام کا شدید ردِ عمل ، پیٹرول پمپس پر توڑ پھوڑ کردی، غصہ بے قابو
تو کیا یہ درست نہ ہوگا کہ قیمتوں میں اضافے کا بوجھ عوام ہی نہیں بلکہ اعلیٰ ترین سرکاری عہدیداروں، ارکان پارلیمنٹ، وزیروں، مشیروں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس پر بھی منتقل کیا جائے؟گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے ایک مہم شروع کی گئی ہے جس میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ، وزیروں، مشیروں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو حاصل مفت پٹرول، مفت بجلی اور مفت فون کی سہولت ختم کی جائے۔فیس بک اور ٹوئٹر پر صارفین نے اپنی احتجاجی مہم میں کہا ہے کہ ملکی معیشت پر سب سے زیادہ بوجھ ان ہی عہدیداروں کو حاصل مفت سہولتوں کی وجہ سے ہے، اگر 20؍ ہزار روپے ماہانہ کمانے والا شخص اپنی بائیک میں خود پٹرول خرید کر استعمال کر سکتا ہے تو لاکھوں روپے تنخواہ لینے کے باوجود ارکان پارلیمنٹ، وزیروں، مشیروں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو مفت پٹرول کی سہولت ملنا سمجھ سے بالاتر ہے۔کئی ایسے عہدیدار ہیں جنہیں نہ صرف مفت پٹرول، بجلی، گیس اور فون کی سہولتیں حاصل ہیں بلکہ انہیں ان کے بچوں اور اہل خانہ کے ہمراہ مفت فضائی سفر اور لاکھوں کروڑوں روپے مالیت کی طبی سہولتیں بھی حاصل ہیں۔ پاکستان جیسے قرضوں کے جال میں جکڑے ملک کے عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر اشرافیہ طبقے اور اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو ایسی پرتعیش مراعات دے کر عوام کے ساتھ مسیحائی کے دعوے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ عوام کی تکالیف کے احساس کا دعویٰ کرنے والے سیاست دان چاہے کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں لیکن سرکاری عہدیداروں کو حکومت کی طرف سے دی جانے والی ایسی مہنگی اور غیر منطقی سہولتیں ختم کرنے کی بات کوئی حکومت یا کوئی سیاست دان نہیں کرتا۔جس وقت وزیر خزانہ پریس کانفرنس میں قیمتیں بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہہ رہے تھے
کہ حکومت کو اندازہ اور احساس ہے کہ اس فیصلے سے غریبوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا لیکن اس وقت دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔شاید وزیر خزانہ کو اس بات کا علم نہیں کہ مہذب دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی کہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ منتقل کرنے والے حکام خود مفت سہولتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کو نہ صرف مفت پٹرول بجلی اور دیگر مراعات حاصل ہیں بلکہ انہیں سرکاری گاڑیاں بھی فراہم کی جاتی ہیں جو نہ صرف دفتری اوقات کار میں سڑک پر گردش کرتی نظر آتی ہیں بلکہ شام اور رات کے اوقات میں بھی اہل خانہ کے زیر استعمال ہوتی ہیں۔اگر بچت کرنا ہی مقصود ہے تو سرکاری عہدیداروں کو نہ صرف پابند کیا جائے کہ وسائل کا بے دریغ اور غلط استعمال بند کیا جائے بلکہ جتنی بچت ممکن ہو کی جائے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ مہنگائی کا جتنا بوجھ عوام پر منتقل کیا جاتا ہے اتنا ہی بوجھ سرکاری اشرافیہ پر بھی منتقل کیا جائے تاکہ حقیقتاً یہ فرق نظر آئے کہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات میرٹ پر مبنی ہیں اور ملکی مسائل کے حل کیلئے ہی ہیں نہ کہ صرف عوام کو کچلنے کیلئے۔