گزشتہ سال ہماری ایک پڑوسن نے اپنے تینوں بچوں کو چوہے مار زہر کھلا کرق ت ل کر دیا اور اس کے بعد اس نے خود بھی پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی۔ اس عورت کا شوہر روزگار کے سلسلے میں شہر سے باہر تھا جب وہ واپس آیا تو اس حادثے کی خبر سب تک پہنچی- جس کے بعد سب ہی نے بتایا کہ یہ عورت کافی دنوں سے پریشان تھی مگر کسی نے بھی اس کی پریشانی جاننے کی کوشش نہیں کی۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ ترقی کے اس عروج پر پہنچنے کے باوجود بھی ہم جسمانی مسائل کے لیے تو ڈاکٹر کے پاس چلے جاتے ہیں لیکن ذہنی اور نفسیاتی مسائل کے لیے کسی سے بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں کہ کہیں کوئی ہمیں نفسیاتی مریض قرار نہ دے دے-
پاکستان میں صارفین کا ڈیٹا چوری کرنے والی بھارتی موبائل ایپ ’ڈیشا‘ کا انکشاف
اس بات کی اہمیت کو بھارت کے شہر پونا سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ راج دگور نے سمجھا اور اس نے پونا کے فرگوسن کالج کے سامنے ایک پلے کارڈ لے کرکھڑا ہونا شروع کر دیا- جس پر یہ پیغام ہوتا تھا کہ آپ اپنی کہانی اور اپنی پریشانی مجھے سنائيں اس کے بدلے میں میں آپ کو دس روپے دوں گا- اگرچہ یہ بہت معمولی رقم ہے مگر اس کا مقصد لوگوں کو اور خصوصاً طالب علموں کو اس بات کا موقع فراہم کرنا ہوتا تھا کہ وہ کسی بھی انتہائی قدم کو اٹھانے سے قبل اپنی بات اور دل کا حال کسی کو کہہ سکیں- اگرچہ اس سے حاصل ہونے والا فائدہ بہت کم وقت کے لیے ہوتا ہے مگر انسان جب کسی کے سامنے اپنے دل کا حال کہہ دیتا ہے تو اس سے اس کو ایسا سکون مل سکتا ہے جس کے بعد وہ خودکشی جیسے انتہائی قدم سے رک سکتے ہیں- راج دگور کے اس عمل کا سبب یہ ہے کہ سال 2019 میں وہ خود شدید ترین ڈپریشن کا شکار رہے جس کے علاج کے لیے ان کو ماہر نفسیات کے پاس بھی جانا پڑا- جس کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسے تمام طالب علموں کی مدد کرے گا جو کہ تعلیمی دباؤ کے سبب ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں-
بچوں پر جنسی حملوں کے جرم میں لارڈ نذیر احمد کو ساڑھے پانچ برس کی سزا سنا دی گئی
راج کے اس عمل کو سوشل میڈيا پر بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور اس کے فالورز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ راج کے پاس اکثر لوگ ڈپریشن کی صورت میں اپنی رام کہانی سناتے ہیں جس کو سن کر راج نہ صرف ان کو تسلی دیتا ہے بلکہ ان کو پھولوں کا تحفہ بھی دیتا ہے جس سے ان کو مشکلوں کا حل نکالنے کی ہمت اور مدد ملتی ہے- ہمارے ملک میں بھی گزشتہ کچھ سالوں سے پڑھے لکھے طالب علم امتحانات کے دباؤ اور دیگر جذباتی مسائل کے سبب خودکشی جیسے انتہائی اقدامات کر رہے ہیں جو کہ ایک خطرناک بات ہے- اگر ہم اپنے قریب کے لوگوں کے ایسے مسائل میں صرف ان کی بات بھی تسلی سے سن لیں تو اس طرح سے اس طرح کے انتہائی اقدامات کو روکا جا سکتا ہے-