اسلام آباد: میری شادی 24 سال کی عمر میں ہوئی تھی اور مجھے ماں بننے میں دلچسپی نہیں تھی۔ لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ آپ کی شادی کو کتنا عرصہ ہوا ہے؟ جب میں انھیں بتاتی تھی کہ دو سال یا تین سال تو وہ کہتے تھے کہ کتنے بچے ہیں؟ میں بتاتی تھی کہ بچے نہیں ہیں تو وہ ترس کھانے لگتے تھے“یہ الفاظ ہیں معروف نیوز اینکر علینہ فاروق شیخ کے جنھوں نے ماریہ میمن کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنی ذاتی زندگی پر بات کی۔ علینہ کہتی ہیں کہ اگرچہ انھیں بچے اچھے لگتے ہیں لیکن وہ ماں نہیں بننا چاہتیں اور ان کے اس ذاتی فیصلے سے اگر لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن لوگ اس بارے میں سوال کرکے انھیں بار بار شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کیا بچہ بڑھاپے کا سہارا ہے؟علینہ کا کہنا ہے کہ جب لوگ انھیں ماں نہ بننے کے بارے میں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو وہ یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ بچے نہیں ہیں تو بڑھاپے کا سہارا کون بنے گا؟ تو مجھے یہ بات بہت بری لگتی ہے
سانحہ مری 7 بہنوں کا اکلوتا بھائی بھی شدید برف باری کی لپیٹ میں آ کر جاں بحق
کہ کیا ہم بچے صرف اس لئے پیدا کریں کہ وہ بڑے ہوکر ہمارا سہارا بنیں؟ کیا انھیں اپنی زندگی گزارنے کا حق نہیں ہونا چاہئیے؟ جبکہ علینہ کے خیال میں جیسے ہر کام کی وجہ ہوتی ہے بچے پیدا کرنے کی بھی کوئی وجہ ہونی چاہئیے۔کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ علینہ ماں نہ بن کر اپنی ذات تک محدود رہنا چاہتی ہیں اس سوال کے جواب میں علینہ کہتی ہیں کہ ایسے بچے کے لئے جو ابھی دنیا میں نہیں ہے میرا اسے دنیا میں نہ لانے کا فیصلہ کرنا خودغرضی کیسے ہوسکتا ہے؟ خودغرضی تو یہ ہے کہ میں اسے دنیا میں لاؤں اور اسے وہ توجہ نہ دوں جس کا وہ حقدار ہے یا پھر کسی بچے کو صرف اس لئے دنیا میں لاؤں کیونکہ مجھے اپنے بڑھاپے کا سہارا چاہئیے۔علینہ کا کہنا ہے کہ یہ تو ان کے اور ان کے شوہر کا دانستہ فیصلہ ہے کہ وہ بچے نہیں پیدا کرنا چاہتے لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہوتے ہیں اور وہ اپنی کمزوریاں ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ اس لئے کسی کو بھی شادی، بچے اور دیگر حساس موضوعات پر سوال نہیں پوچھنا چاہئیے کیونکہ اس سے متعلقہ شخص کو تکلیف پہنچتی ہے۔