پاکستانی جوان جب کسی معرکہ پر جاتے ہیں تو ذہن میں صرف ایک ہی سوچ ہوتی ہے اور وہ سوچ ہے شہادت اور ملک کا دفاع۔ یہی وہ سوچ ہے جو انہیں آگے بڑھنے میں، دشمن پر حاوی ہونے میں اور دشمن کو لڑکھڑانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ پاکستانی جوان کی اصل زندگی کی شروعات ہی شہادت کے بعد ہوتی ہے۔ لیکن اس خبر میں آپ کو مرد اور خواتین ان شہید جوانوں کے بارے میں بتائیں گے جو اپنے ہر قدم پر اپنے حوصلے کے باعث دشمن کو بھی معترف ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ مریم مختار: 1 جنوری 1992 کو پیدا ہونے والی مریم نے کراچی کی این ای ڈی یونی ورسٹی سے ڈگری مکمل کی تھی اور پھر پاکستان کی پہلی فائٹر پائلٹ کے طور پر سامنے آئی تھیں۔ مریم کی قابلیت اور مہارت ہی تھی کہ بھارت بھی پاکستان کی اس جانباز بیٹی کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا، بھارتی میڈیا نے مریم مختار کی بطور فائٹر پائلٹ کو اپنے ائیر فورس کی فائٹر پائلٹس سے موازنا کرنا شروع کر دیا تھا۔
مریم نومبر 2015 میں فائٹر کرافٹ کے کریش ہونے کے باعث شہید ہو گئی تھیں، اگرچہ مریم شہادت کے اعلیٰ رتبہ پر پہنچ گئی مگر آنے والی خواتین کے لیے ایک نیا راستہ دکھا گئی ہیں۔ مریم کی والدہ اپنی بیٹی کو کمپیوٹر کہا کرتی تھیں وہ کہتی ہیں کہ بیٹی بہت اچھی تھی مجھے اپنی بیٹی پر فخر ہے، میں اپنی بیٹی کو سورج دیکھنا چاہتی تھی، جس کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکے، جو کسی پر منحصر نہ ہو۔ اگرچہ والدہ شہادت پر فخر کرتی ہیں مگر ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، والدہ نے مریم کے کمرے کو آج بھی اسی طرح سنبھال کر رکھا ہوا ہے جیسا مریم کو پسند تھا۔ ان کا پسندیدہ رنگ گلابی بھی اس کمرے میں موجود ہے۔ والدہ کہتی ہیں کہ مریم کو تصاویر کچھوانے کا شوق تھا، مریم اور ان کے والد کا آپس میں کافی مضبوط ریلیشن تھا۔ میری بیٹی پیدا ہی ائیر فورس میں ہونے کے لیے تھی۔ مریم کے بابا اور مریم میں اکثر بحث ہوتی تھی، کہ بابا آپ ریٹائیرڈ کرنل ہیں، میرا گھر فضاؤں میں ہے مجھے ایڈونچر چاہیے۔ مریم کے والد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بچی گنوائی ہے، یہ میرے لیے ایک ایسا لمحہ ہے جب میری زندگی تبدیل ہو گئی ہے۔ مریم کے بعد پاکستان کی مزید بچیاں بھی اس فیلڈ میں آءین گے، دشمن کو لگ پتہ جائے گا کہ صرف مرد ہی نہیں خواتین بھی دشمن کے خلاف تیار ہیں۔ مریم کی والدہ اس وقت افسردہ ہو گئیں جب وہ بیٹی سے آخری بار فون پر ہوئی گفتگو کے بارے میں بتا رہی تھیں، وہ کہتی ہیں کہ ماما اب سے آپ کو میرے سے ملنے کے لیے اپوائنمنٹ لینا پڑے گا، کیونکہ اب میں عام پائلٹ نہیں ہوں، فائٹر پائلٹ بن چکی ہوں، بیٹی نے بس یہ کہا اور فون رکھ دیا۔ لیکن اب میں اپوائنمنٹ لینا چاہوں تب بھی نہیں مل سکتا۔ کیپٹن بلال ظفر شہید: کیپٹن بلال ظفر شہید بھی ان شہید جوانوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس خیال کا اظہار اپنی ماں کے سامنے کیا تھا کہ ماں ایک دن پاک آرمی کے جوان میری لاش کو پاکستانی پرچم میں لے کر آپ کے پاس لائیں گے۔ جس پر ماں حیرت زدہ ہو کر کہنے لگیں کیا کہہ رہے ہو بلال؟ کیپٹن بلال شہید 4 بہنوں کا سب سے چھوٹا بھائی تھا،
عالمی برادری نے اگر ہماری حکومت کو تسلیم نہ کیا توفائدہ داعش کو ہو گا، افغان وزیر خارجہ
جنہوں نے سینٹ پول اسکول سے میٹرک کیا۔ کیپٹن بلال شہید کی والدہ بتاتی ہیں کہ بلال بہت ہی نرم گو اور ملنسار شخصیت کا مالک تھا، ہمیشہ مسکرا کر ہر بات کا جواب دیتا تھا۔ والدہ کا کہنا تھا کہ ایک دن بیٹی کے سسر نے فون کیا کہ ہم آج آپ کی طرف ناشتہ کرنے آرہے ہیں، جس پر میں نے سوچا کہ فوجی افسران تو اتوار کے روز گھر پر ہی ناشتہ کرتے ہیں پھر ۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہوئے بلال شہید کی ماں کی آواز میں نرمی آگئی اور وہ بیٹی کے سسر سے کہنے لگیں کہ سچ بتائیں کیا بلال شہید ہو گیا ہے؟ یہ جملہ تھا جسے ادا کرتے ہوئے خود بلال شہید کی والدہ بھی نرم ہوگئیں۔ بیٹی کے سسر نے کہا کہ بلال کو گولی لگی ہے اور سی ایم ایچ اسپتال منتقل کیے گئے ہیں۔ والدہ کا کہنا ہے کہ بلال نے اپنی شہادت سے پہلے ہی سب کو بتا دیا تھا کہ تین دن سے زیادہ کوئی سوگ نہیں کرے گا، میرے جانے کے بعد میرے والدین کا خیال رکھنا اور میرے دفنانے کے چند روز میں ہی والدین کو گاؤں سے راولپنڈی لے آنا۔ کیپٹن بلال شہید کے والد کہتے ہیں کہ میں بطور والد بہت پریشان تھا کہ یہ لڑکا شہید ہوگا، خوشی بھی تھی مگر والد کا غم اپنی جگہ ہے۔ والد کہتے ہیں کہ شہادت سے ایک رات پہلے بلال نے یونیفارم تیار کر کے دیا تھا کہ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میرے کوفن کے ساتھ یہ یونیفارم بھی دینا۔ جبکہ بلال کے بھائی کا کہنا ہے کہ جس طرح بلال سب کاموں سے متعلق مجھے بتا رہا تھا اور آخری وصیت کر رہا تھا، مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ بلال اب واپس نہیں آئے گا۔ شہادت کے جذبے سے چور بلال جب گھر واپس آیا تو بلال کے نام کے ساتھ شہادت کا خطاب بھی لگ چکا تھا، جو کہ بلال کی دلی خواہش تھا۔ کیپٹن اسحاق شہید: کیپٹن اسحاق ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کولاچی میں دہشت گردوں سے لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کیا تھا، شہید کا شمار ان جوانوں میں ہوتا تھا جو کہ اپنے فرض کو پورا کرنے میں دل و جان لگا دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے گھر والوں سمیت ہر ایک کی نظر میں اہم تھے۔ 28 سالہ کیپٹن اسحاق کا تعلق خوشاب سے تھا جبکہ شہید نے کی اہلیہ اور ایک بیٹی بھی ہے۔
لیکن اب جو بات آپ کو بتانے جا رہے ہیں، وہ ہو سکتا ہے آپ کے لیے حیرت کا باعث بنے۔ شہید کی اہلیہ نے دہشت گردوں کو اپنے عمل سے ایک ایسا پیغام دیا ہے جس نے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ شہید کی اہلیہ نے آرمی سے بہترین شوٹر کا خطاب حاصل کر لیا ہے جبکہ وہ آرمی کو جوائن کر چکی ہیں۔ شوہر کی شہادت کے بعد اہلیہ ڈاکٹر عائشہ نے آرمی میڈیکل کالج کو جوائن کیا اور ایک ہی عزم تھا کہ دشمن کے آگے ابھی مشکل اور بھی ہے۔ یہ عزم و ہمت ہی تھا کہ ڈاکٹر عائشہ نے اپنی آرمی ٹریننگ کامیابی کے ساتھ مکمل کی۔ ڈاکٹر عائشہ نے ٹریننگ میں بہترین شوٹر کا خطاب حاصل کر کے ان تمام پاکستان دشمن قوتوں کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ یہ ملک بچانے کے لیے خواتین کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں۔