ریاض: سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی عرب ایران کو پڑوسی ملک کی حیثیت سے دیکھتا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ ریاض تہران کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کا خواہش مند ہے، مسئلہ تہران کا منفی طرز عمل ہے۔ ‘العربیہ’ کے ذریعے نشر ہونے والے ٹیلی ویژن انٹرویو میںانہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ایران کے ساتھ تعلقات خراب کریں، اس کے برعکس ہم چاہتے ہیں کہ ایران ترقی کرے۔ ہمارے مفادات ایران سے اور ایران کے سعودی عرب سے وابستہ ہیں۔ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دے کر ہم خطے اور دنیا کو ترقی اور خوشحالی کی طرف راغب کرسکتے ہیں۔محمد بن سلمان کا کہنا تھا
کہ ہمارا مسئلہ ایران کے منفی رویے کا نتیجہ ہے خواہ اس کا جوہری پروگرام ہو یا خطے کے کچھ ممالک میں قانون سے باہر ملیشیاﺅں کی حمایت یا اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام ہو۔ یہ سب ہمارے لیے تعلقات کو آگے بڑھانے کی رکاوٹیں ہیں۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سعودی عرب ایران کے ساتھ اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے خطے اور دنیا میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سعودی عرب اپنی سرحدوں پر مسلح ملیشیاو¿ں کی موجودگی کو قبول نہیں کرسکتا کیونکہ یہ مسلح گروپ کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوںنے یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی دعوت دی۔ان کا کہنا تھا کہ حوثی باغیوں کا ایرانی حکومت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یمن میں آئینی حکومت کے خلاف حوثی بغاوت غیر قانونی ہے۔شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حوثیوں کا ایرانی حکومت کے ساتھ گہرا تعلق ہے لیکن حوثی یمن ہی کے باشندے ہیں اوران کی شناخت یمن کے عرب باشندوں کے ساتھ ہے۔ مجھے امید ہے کہ یمن کے حوثی اپنے ملک کے مفادات کو ہرچیز پرمقدم رکھیں گے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ حوثی مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل طلب مسائل کا حل تلاش کریں گے جو تمام یمنیوں کے حقوق کی ضمانت اور خطے کے ممالک کے مفادات کی ضمانت دیں۔انہوں نے مزیدکہا کہ سعودی عرب اپنی سرحدوں پر خلاف قانون کسی مسلح تنظیم کے وجود کو قبول نہیں کرتا،حوثیوں کو جنگ بندی قبول کرنا ہوگی اور انہیں مذاکرات کی میز پر بیٹھ آنا ہو گا۔