صاحبو میں ملک دانش آباد کے ایک تاجر کی اکلوتی بیٹی ہوں۔میرا باپ رئیس التجار کہلاتا ہے اور جتنا مال دساور کو جاتا ہےاُتنا ہی وہاں سے آتا ہے اور وہ کئی ملکوں کے لمبے لمبے سفر اپنے ذاتی بیڑے پہ کرتا ہے۔میرا باپ جب بھی سفر سے لوٹتا تھا تو میرے لئے کسی نہ کسی ملک کی سوغات لاتا تھا۔ایک دفعہ سفر سے لوٹا تو میرے لئے سفید رنگ کی ایک بلی لایا۔ وہ بلی مجھے بڑی مرغوب تھی اور میں دن رات اُسے اپنے ساتھ چپکائے پھرتی تھی اور فقط سوتے وقت ہی جدا کرتی تھی۔
میری اُس بلی سے محبت اتنی بڑھی کہ جب گھرمیں میری شادی کے تذکرے ہوئے تو میں نے اپنی اماں اور باوا سے کہہ دیاکہ میرے ساتھ یہ بلی بھی میرے سسرال جائے گی، اس بات پہ سبھی ہنستے تھے۔وہ بلی بھی مجھ سے اُتنی ہی مانوس تھی اور میرے سوا کسی کے ہاتھ سے کھاتی تھی، نہ پیتی تھی۔ایک روز جبکہ میں گھرمیں اکیلی تھی، دروازے پہ کسی نے دستک دی۔میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک بھجنگ فقیر دروازے پہ کھڑا ہے۔میں نے اُسے کچھ خیر خیرات دی تو وہ ہنس کے بولا۔میں جانتا ہوں کہ تیری شادی ہونے والی ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ تیری ہونے والی ساس اول درجے کی کٹنی اور چنڈالنی ہے اور وہ تجھے اُس گھر میں ہنسی خوشی بستا نہیں دیکھے گی۔میں اس قبیل کی باتیں پہلے بھی اپنے گھر میں سن چکی تھی، چنانچہ میں ڈر گئی اور جی میں کہا کہ یہ کوئی ضرور بڑا ہی پہنچا ہوا ولی ہے اور اُس سے مدد کی طالب ہوئی۔تس پہ وہ نگوڑا بولا۔تُو مجھے اپنے سر کا ایک بال دے دے کہ میں اُس پہ رات کو ایسا عمل کروں گا کہ تُو ہر غم سے ہمیشہ کو نچنت ہو جاوے گی۔میں چاہتی تھی کہ اُسے اپنے سر کا بال دوں لیکن اُسی وقت میری کنیز گھر آگئی اور مجھ سے دروازے سے ہٹ کے یہ قصہ پوچھا اور میرے بتانے پہ کہ یہ فقیر میرے سرکا بال مانگتا ہے، بولی۔اے بی۔دیوانی ہوئی ہو۔میں نے سنا ہے کہ آج کل اس روپ بہروپ میں جادو گر پھررہے ہیں۔خبر دار ایساکبھی نہ کرنا۔تس پہ میں نے اُسے اپنی شادی کے بعد کے واقعات کا اُس فقیر کا عالم ہونا بتلایا ۔کنیز بڑی ہوشیار تھی، چنانچہ اُس نے ہرن کی کھال کے بنے ،فرش پہ پڑے غالیچے سے ایک بال توڑا کہ میرے بالوں کی طرح سنہرا تھا۔اور دے کے بولی۔یہ اُس فقیر کو دے آؤ کہ ہماری ڈیوڑھی سے ٹلے۔
چنانچہ میں نے وہ بال اُس فقیر کو دے دیا۔میں اس بات کو بھول بھال گئی۔ جب رات آدھی اِدھر اور آدھی اُدھر ہوئی تو شور سے میری آنکھ کھلی ، کیا دیکھتی ہوں کہ فرش پہ پڑا غالیچہ فرش سے اُٹھ اُٹھ کے دروازے سے ٹکریں مارتاہے۔میں یہ منظر دیکھ کے ڈر گئی اور برابر کے کمرے میں سوئی اپنی کنیز کو بلوایا۔کنیز نے یہ منظر دیکھا تو بولی۔اے بی ، میں نے پہلے ہی کہا تھاکہ وہ موا کوئی جادو گر تھا ۔اب وہ کہیں بیٹھا عمل کر رہا ہے اور اگر یہ بال تمہارے سر کا ہوتا تو تم کبھی کا دروازہ کھول کے گھر سے نکل کے اُس پاکھنڈی کے پاس پہنچ گئی ہوتیں اوروہ نجانے تمہار ا کیا حشرکرتا۔حالانکہ اُس بد ذات کی نیت اور عمل کو مد نظر رکھ کے دیکھوتو حشر کی صراحت کرنے کی مطلقاً حاجت نہیں ہے۔یہ غالیچہ چونکہ دروازہ نہیں کھول سکتا اس واسطے دروازے سے ٹکریں مار تا ہے۔تس پہ میں نے کہا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے تو وہ کنیز بولی۔ہمیں دروازے کھول کے اس غالیچے کا پیچھا کرنا چاہئے اور ساتھ سپاہیوں کو لینا چاہئے کہ وہ موذی جہاں بھی ہو، اُسے گرفتار کرکے صبح قاضی کی عدالت میں پیش کریں کہ اپنے کئے کی سزا پاوے۔چنانچہ میں نے اپنے باپ کو خبر کی اور اُنہوں نے ویسا ہی کیا۔دروازہ کھلتے ہی غالیچہ آگے اور ہم اُس کے پیچھے روانہ ہوئے۔ گھر سے کوئی تین کوس پہ ایک ویرانے میں وہ خبیث بیٹھا تھا اور سامنے آگ جلائے کچھ پڑھتا تھا۔اور زمین سے خاک اُٹھا اُٹھا کے آگ میں ڈالے جا رہا تھا۔غالیچہ اُس کے قدموں میں گرا تو وہ حیران ہوا اورپھر خود سے کہنے لگا کہ مجھ سے چھل کرنے والی ، اب میں تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں۔دیکھتی رہ۔پھر ایسے زور سے بنکارہ کہ پیڑوں پہ بیٹھے پکھیرو ڈر کے اُڑ گئے۔ چاہتا تھا کہ خاک پہ کچھ پڑھ کے اُسے سپرد آتش کرے اور اپنے کسی نئے جادوگری حیلے کو کام میں لاوے کہ میرا باپ اور سپاہی اُس کے سر پہ پہنچ گئے اور ملعون کی مشکیں کس لیں۔صبح اُسے قاضی کی عدالت میں پیش کیا اور ساری حکایت بھی گوش گزار کی
۔قاضی نے اُسے موت کی سزا دی اور دوپہر سے پہلے اُسے سولی پہ لٹکا دیا گیا۔ دس بارہ روزبعد میری شادی تھی، اس لئے میں اپنی خوشیوں میں سب بھول بھال گئی۔شادی سے دو روز پہلے میں گھر کی چھت پہ بال کھولے سُکھا رہی تھی کہ اچانک تیز ہوا چلی اور ابھی میں نیچے اُترنے کا ارادہ جی میں باندھ ہی تھی کہ کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کالا کوا کہ جس کے بدن پہ بڑے بڑے بال تھے، میرے سامنے والی منڈیر پہ آن بیٹھا اور آدمیوں کی سی آواز میں بولا۔میں وہی ہوں کہ جسے تُونے دھوکہ دیا تھا۔میں جن ہوں اور ہم جن اپنی جان اپنے ساتھ لئے نہیں پھرتے۔تم لوگوں نے جسے سولی دی تھی وہ میرا ایک بہروپ تھا۔میری جان اس کوے میں ہے جو اس وقت تیرے سامنے بیٹھا ہے۔میں تیری شادی نہیں ہونے دوں گا اور تجھے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔میں چاہتی تھی کہ چیخوں مگرآواز میرے حلق سے نہیں نکلتی تھی۔ اُسی وقت میری سفید بلی چھت پہ آئی اور اُس موذی پہ جھپٹی۔وہ موذی بلی کے ڈر سے اِدھر اُدھراُڑنے لگا پھر دیوار پہ بیٹھ کے بولا۔شہزادے ، میری تجھ سے کوئی لڑائی نہیں۔میں فقط اس آدم زادی پہ عاشق ہوں اور اسے ساتھ لے جاناچاہتا ہوں۔تس پہ میری بلی مردانہ آواز میں بولی۔دفع ہو جا نا ہنجار ورنہ جلا کے خاک کردوں گا۔جن ہنسا اور بولا۔کس برتے پہ ایسی باتیں کرتے ہو، تم تو خود راندہ درگاہ ہو۔بلی ایک بار پھر اُس پہ جھپٹی تو وہ نا ہنجار بھرا مار کے اُڑ گیا۔میں حیران و ششدر کھڑی تھی۔تس پہ بلی میرے قریب آئی اور بولی۔تم گھبرائیو مت۔اپنے کمرے میں چلو۔میں تمہیں ساری بات بتلاتا ہوں۔ اُس رات جب میں سارے کاموں سے فراغت پا کے کمرے میں آئی اور دروازہ اچھی طرح اندر سے بند کر لی۔تو بلی نے کہا۔میں اب اپنے اصلی روپ میں آ رہا ہوں۔تجھے واجب ہے کہ نہ ڈرے گی اور نہ چیخے گی۔یہ کہتے ہی بلی ایک خوب رو مرد میں تبدیل ہوئی۔میں نے اتنا حسین مرد اس سے پہلے دیکھا تھا نہ سنا تھا چنانچہ بار بار اپنی اُنگلیوں کو کاٹ کے خود کو یقین دلاتی تھی کہ میں عالم رویا میں نہیں ہوں۔ چیخنے چلانے کا تو کیا مذکور میں اُس کی صورت پہ شتابی عاشق ہوئی اور اُسے اپنے پہلو سے بِھڑا کے بٹھا لیا۔یہ سلوک دیکھ کے وہ خوش ہوا اور بولا۔میں ملک جنات کا شہزادہ ہوں اور میرے باپ نے مجھ سے ذرا سی ناچاقی پہ خفا ہوکے مجھے پچاس برس کے واسطے اپنی مملکت سے بے دخل کر دیا ہے۔میں بلی کے روپ میں بھٹک رہا تھا کہ ملک شام کے ایک تاجر زادے نے مجھے خرید لیا۔وہ مجھے بہت تنگ کرتا تھا اور ایسی محبت و موانست سے پیش نہ آتا تھا جیسے تُو پیش آتی ہے۔ایک روز وہ مجھے بازار میں فروخت کے واسطے لایا جہاں تیرے باپ نے مجھے خرید لیا۔تیرے حسن سلوک نے مجھے تیر ا گرویدہ کر دیا اور اب میں نے ٹھانی ہے کہ میں کبھی تجھ سے جدائی اختیار نہ کروں گا ،حالانکہ میرے باپ کی دی ہوئی مدت بس اب ختم ہوا ہی چاہتی ہے۔اے طلعت رُو،میں جن ہوں اور تُو آدم زادی مگر میں سچ کہتا ہوں کہ میں تجھ پہ جی جان سے عاشق ہو چکا ہوں جب سے تیری شادی کی بات چیت چلی ہے،
ہمہ وقت دل کو مسوسے تجھے دیکھا کرتا ہوں اور میری حالت اُن مرغ و ماہی کی سی ہے کہ انگاروں پہ بھنتا اور فریاد بھی نہیں کر سکتا۔ میں پہلی نظر میں اُس پہ فدا و فریفتہ ہو چکی تھی اور اب اُس کی جدائی کا سوچتی تو قلق سے بے حال ہوئی جاتی تھی، چنانچہ اُس سے بولی۔اے میرے عاشق سنتی ہوں کہ جن دلوں کا بھید جان لیتے ہیں، تُو یقیناً جان گیا ہوگا کہ میں کس طور تجھ پہ مر مٹی ہوں۔تس پہ وہ نفی میں زور زورسے سر ہلانے لگا اور بولا۔یہ سب باتیں تم انسانوں کی پھیلائی ہوئی ہیں۔دلوں کے بھید بس وہی جانتا ہے کہ جس نے مجھے جن اور تجھے انس بنایا ۔وہ بصیرو سمیع اور علیم ہے۔ہم جنات بھی انسانوں کی طرح بس اُتنا ہی جانتے ہیں جتنا ہمیں سکھلایا گیا ہے۔یہ پاکھنڈبھی انسانوں کی ایجاد ہے ۔ہم بس اُتنا ہی جانتے ہیں جتنا اُس نے ہمیں بتادیا ہے، نہ رتی بھر زیادہ نہ ماشہ بھر کم۔مگر جانی،میں تیرے چہرے سے پڑھ سکتا ہوں کہ تُو کیسے میری محبت میں سوختہ ہے اور یہی حال اِدھر بھی ہے مگر کیا کیجئے کہ تیرے والدین تیری نسبت ٹھہرا چکے ہیں اور اب اگر تُو انکار کرتی ہے تو تیرا باپ کچھ کھا کے سو رہے گا اور میں ایسا کبھی نہ چاہوں گا کہ وہ کیسا عاشق کہ اپنی مطلب براری کے واسطے معشوق یا اُس کے لواحقین کو ناحق پریشانی میں ڈالے۔چنانچہ کچھ اور سوچ ورنہ میری جدائی کا دُکھ سہہ کہ پھر یہی میرا مقدر بھی ہوگا۔تس میں نے کہا اگر تُو مجھ سے اتنا ہی پیار کرتا تھا تو تجھے واجب تھے کہ میری بات پکی ہونے سے پہلے اس روپ آتا اور جو بھی تیرے جی میں تھا اُس کا اظہار کرتا تو وہ رو رو کے یوں گویا ہوا کہ جانی، مجھے پہ جو جو پابندیاں تھیں اُن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ میں ایک وقت مقرر سے پہلے کسی اور شباہت میں خود کونہیں ڈھال سکتا تھا۔میں نے یہ عذر قبول کیااور حسرت سے ٹُکر ٹُکر اپنے عاشق کو دیکھتی رہی، اُس نےبھی جواباً یہی عمل جاری رکھا۔ میں سوائے منہ لپیٹ کے رونے کے اور کوئی راستہ نہ جانتی تھی چنانچہ یہی کیا کی۔اُدھر گھرمیں نوبت رکھ دی گئی تھی اور شادیانوں کا دن رات اہتمام رہتا تھا اِدھر میں اپنی جراحت میں پھنکی جاتی تھی۔ہر رات میں اپنے کمرے کے دروازے بند کرتی اور میرا عاشق جن، بلی سے انسان کی کایا کلپ کر لیتا اور ہم ایک دوسرے کے حال پہ آنسو بہاتے۔کرنا خدا کا یہ ہوا کہ وہ مرد کہ جس سے میری نسبت ٹھہری تھی، میرے باپ سے جہیز میں دساور کو بھیجے جانے والا ایک بحری بیڑہ مانگنے لگا۔پہلےتو میرا باپ اسے مذاق سمجھاکہ اِتا زیادہ جہیز کسی نے دیا تھا اور نہ کسی نے لیاتھا لیکن جب وہ اور اُس کے عزیز منہ بھر بھر تقاضہ کرنے لگے تو میرے باپ کا ماتھا ٹھنکا۔یہ بات مجھ سے چھپانے کی کوشش کی گئی۔مگر میری اناکہ مجھے دل و جان سے چاہتی تھی، مجھے سب خبر پہنچائے جاتی تھی۔پھر ایک روز نوبت یہاں تک پہنچی کہ اُس طرف سے یہ شرط نہ ماننے کی صورت میں یہ رشتہ توڑنے کی دھمکی ملی۔ میرا باپ اس صدمے سے بستر سے لگ گیا اور ماں دن رات آنسو بہاتی تھی۔میں نے اپنے عاشق جن سے مشورہ کیا تو وہ بولا۔جانی میں سر دست اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ تیرے ہونے والے سسرالیوں کو گھر سمیت دریا برد کر دوں مگر یہ خون ناحق ہوگا اورمجھے روز محشر اس کا جواب دینا ہوگا لیکن اگر یوں تیری تسلی ہوتی ہے تو میں اس پہ بھی تیار ہوں کہ تیرے واسطے تا ابدآتش میں پھونکا جاؤں۔میں ایسا ہرگز نہ چاہتی تھی اور شاید اللہ کو میری اور میرے عاشق جن کی یہی ادا پسند آئی اور اُن لالچییوں نے خود ہی رشتہ توڑ دیا۔
میرا باپ منہ چھپاتاپھرتا تھا۔میرے باپ کا ایک اُستاد تھا کہ بچپن میں جس سے میرے باپ نے لکھنا پڑھنا سیکھا تھا۔وہ اُسی شہر میں آباد تھا۔جب میرے باپ کی بیماری اور اُس کے سبب سے واقف ہوا تو ایک رات میرے باپ کے پاس آیا اور یوں گویا ہوا۔میں تجھے بڑا زیرک مرد سمجھتا تھا اور میراخیال تھا کہ تجھ میں حوصلہ بھی ہوگا۔تُو کس سبب سے خلق خدا سے منہ چھپاتا پھرتا ہے۔تیری بیٹی نہ گھر سے بھاگی کہ تُو شرمندہ ہو اور نہ اُس نے بے نکاح کابچہ جنا کہ تیرے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہوتا۔یہ شرمندگی تو اُن کو ہونا چاہئے کہ جنہوں نے اتنی خوبصورت اور خوش سیرت بچی پہ اُس مال کو ترجیح دی کہ جس کی ناپائیداری روز روشن کی طرح سب پہ عیاں ہے۔اے عزیزیاد رکھ۔لڑکی والوں کا ہاتھ ہمیشہ اُوپر ہوتا ہے کہ کہ نعم و ناز میں پلی بچی غیروں کے سپرد کرتے ہیں اور یہی نہیں دنیا کے ایک غلط دستور کے بموجب اُن کے پوٹے بھی بھرتے ہیں۔اور مجھے ہمیشہ اُن بے حیاؤں پہ حیرت ہوتی ہے جو گھوڑوں اور اونٹوں پہ اسباب لدوا کے فخریہ اُسے اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں۔اگر وہ اتنے ہی فقٹے ہوتے ہیں تو اُنہیں بیٹوں کو بیاہنے کی کیا حاجت ہے۔چنانچہ تُو نچنت ہوجا اور اپنی بیٹی کے واسطے لالچیوں میں نہیں، خدا ترسوں میں کوئی بر تلاش کر اور اگر خود کو ایسا کرنے سے معذور پاتا ہے تو پھر مجھے اجازت دے کہ جو کروں گا تیرے بھلے کو کروں گا۔ یہ گفتگو میرے باپ کو خوش آئی اور وہ بھلا چنگا ہو کے بستر سے اُٹھ گیا۔میرے باپ کے اُستاد نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔جو جو بھی اس قصے سے واقف ہوتا تھا وہ لڑکے والوں کو نکو بناتا تھا اور میرے باپ کو مبارک باد یاں دیتا تھا کہ اُس کی بیٹی لُنگاروں سے بچ گئی۔صاحبو اس واقعے کے بعد میں اور میرا عاشق جن بہت خوش تھے چنانچہ ہم نے طے کیا کہ جن انسانی روپ میں میرے باپ سے میرا رشتہ طلب کرے ۔چونکہ میرے عاشق کوجتی مدت کے واسطے اُس کے باپ نے دربدر کیا تھا ، وہ اب ختم ہی ہوا چاہتی تھی، تو وہ اپنے گھر کو لوٹ گیا اور اپنے باپ کو دست بستہ اپنی رُوداد سنا کے اُس سے ملتمس ہوا کہ وہ میرے باپ سے میرا رشتہ مانگے۔چنانچہ اُس کا دل پسیجا اور وہ جنوں کی ایک جماعت لے کے، کہ انسانی روپ میں تھی، میرے باپ کے پاس رشتہ لے کر آ گیا۔اُنہوں نے خود کو کسی ملک کا امیر التجار بتلایا اور میرے باپ کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور میرا رشتہ منظور کرکے ایک دفعہ پھر گھر میں شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔خوشی کے مارے میرے پاؤں زمین پہ نہ ٹکتے تھے کہ وہ موذی اپنا وار کرنے میں کامیاب ہوا۔ میں اپنی شادی سے تین روز پہلے نہا کے گھر کی چھت پہ بال سکھا رہی تھی۔اور اُن میں کنگھا بھی کرتی جاتی تھی کہ کسی کام سے نیچے گئی۔واپس لوٹی تو دیکھا کہ ایک کالا کوا وہ کنگھا منہ میں لئے اُڑا ہی چاہتا ہے۔میں ہائیں ہائیں کرتی رہ گئی اور وہ موا کنگھا اپنی چونچ میں دبائے اُڑ گیا۔خیر میں نے دوسرے کنگھے سے اپنے بال سنوارے اور اُس رات جب میں اپنے کمرے میں سو رہی تھی، میرا جی بریطرح گھبرایا اور چاہا کہ دیواروں سے ٹکریں ماروں۔میرا جثہ ایک ایسی گرمی سے پھنکا جاتا تھا کہ جس کے بیان سے نطق کو عاجز پاتی ہوں۔میں نے دروازہ کھولا اور پھر یوں لگا جیسے کوئی مجھے اُڑائے لئے جاتا ہے۔دربان نے جو مجھے یوں بغیر پردے کے باہر جاتا دیکھاتو دوڑ کے میرے باپ کو جگایا۔میرا باپ سمجھا کہ میں ضرور ہی کسی دِھگڑے سے ملنے کے واسطے رات کے اس پہر گھر سے نکلی ہوں ، چنانچہ اُس نے پانچ سات تلوار بردار سپاہی ساتھ لیے اور میرا پیچھا کرنے لگا ۔ صلاح یہ ٹھہری تھی کہ اگر میں کسی یار سے ملنے جارہی ہوں توہم دونوں کے قتلے کرکے وہیں کہیں دبا دئیے جائیں گے۔
لیکن وہاں تو قصہ ہی کچھ اور تھا۔جب میرا باپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا تو وہ خبیث جادوگر آگ میں اپنا عمل کرتا پایا گیا۔میرا باپ اور سپاہی یہ معاملہ دیکھ کے بھونچکے رہ گئے اور چونکہ وہ پہلے بھی یہ ماجرا دیکھ چکے تھے اس لئے میرے باپ نے مجھے مظلوم جانااور تلواریں سونتے اُس نابکار کے قریب پہنچ گئے۔ایک سپاہی نے ٹھوکر مار کے وہ آگ بجھا دی۔کہ جس پہ وہ اپنا منحوس عمل کئے جاتا تھا۔آگے بجھتے ہی میں جیسے ہوش میں آگئی اور اپنے تئیں بے رِدا، بے برقعہ اتنے مردوں میں پایا تو شرم سے کٹنے لگی۔میراباپ چاہتا تھا کہ اُس مردود کے ٹکڑے کر دے مگر اُس نے خود کو جادو کے وار سے بچا لیا اور ہنس کے بولا۔اے تاجر زادے۔اب بھی وقت ہے، اپنی بیٹی کو مجھ سے بیاہ دے وگرنہ پورا خاندان برباد کر دوں گا۔جو جو سپاہی اُس پہ وار کرتا تھا، وہیں پتھر کا ہوجاتا تھا۔میں ڈری کہ وہ یہی حشر میرے باپ کا بھی نہ کرے مگر اُسی وقت کسی گزرتے ہوئے جن نے یہ ماجرا دیکھااور میرے عاشق کو کوہ قاف میں خبر دی۔وہ اُسی وقت جنات کا پرا لئے روانہ ہوا۔مگر وہ موذی اپنا وار کر چکا تھا۔اُس نے میرے بدن پہ کچھ پڑھ کے پھونکا اور یہ زنجیریں جو تم دیکھتے ہو، میرے بدن سے لپٹ گئیں۔پھر ایک آندھی چلی اور میں نے خود کو اس جنگل میں پایا۔اب وہ مردود ہر روز میرے پاس آتا ہے اور مجھے گناہ کے بدلے رہا کرنے کو کہتا ہے۔اے صاحبو میں ان زنجیروں کے طلسم میں اگر ایک ہفتہ اور رہی تو مر جاؤں گی ۔میرا عاشق جن اور اُس کے ہم وطن ہر رات آتے اور ہو ا میں ٹنگے ٹنگے مجھے دلاسہ تسلی دے جاتے ہیں کہ وہ بھی اس جادو کے آگے بے بس ہیں۔میں نے اپنی کہہ دی ، اب اگر تم میں سے کوئی میری مدد کرے اور مجھے اس طلسم سے نجات دلادے