ریاض(ویب ڈیسک) عربی زبان دُنیا کی مشکل ترین زبانوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ اس زبان کی فصاحت اور بلاغت ایسی ہے کہ عرب بھی ساری عمر اپنی یہ زبان پوری طرح نہیں سیکھ پاتے۔ تاہم ایک پاکستانی بچی نے چھوٹی عمر میں ہی ایسی شاندار مہارت حاصل کر لی کہ عربوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آسیہ عارف کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف تین سال کی عمر میں انہوں نے قطری ٹی وی کو عربی زبان میں انٹرویو دیا۔
صرف سات سال کی عمر میں عربی زبان میں کتاب لکھ ڈالی اور پھر کچھ عرصے بعد ان کی دوسری عربی کتاب بھی سامنے آ گئی۔ آسیہ نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے عربی بول چال کورس میں اے گریڈکامیابی حاصل کی۔ آسیہ کے والد اور والدہ دونوں کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ مگر ان کا عربی زبان کو فصاحت و بلاغت کے ساتھ بولنا ہر ایک کو دنگ کر دیتا ہے۔ قومی اخبار ایکسپریس کی جانب سے آسیہ پر ایک تفصیلی فیچر چھاپا گیا ہے جس کے مطابق آسیہ نے نوبرس کی عمر میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے عربی زبان کا ایڈوانس ڈپلومہ بی گریڈ کے ساتھ حاصل کیا۔ اس وقت وہ سکول میں تیسری جماعت کی طالبہ تھیں۔ انھیں قطر، کویت، عمان، ترکی اور سعودی عرب کی طرف سے ان کی بچوں کے لئے ادبی خدمات پر متعدد انعامات اور تعریفی اسناد دی گئیں۔آسیہ کی عمر محض تین برس تھی جب انھوں نے قطر میں ایک ٹیلی ویژن چینل کو نہایت فصیح زبان میں پانچ چھ منٹ کا انٹرویو دیا۔ اس پرایک ہزار ریال کا انعام ملا، کئی عربی اخبارات میں آسیہ کے بارے میں پورا صفحہ شائع ہوا۔
آسیہ دس منٹ میں عربی زبان کے سو اشعار سنا سکتی ہیں۔اس کے علاوہ انہیں رسول اکرم کا حضرت آدم علیہ السلام تک شجرہ نسب بھی یاد ہے۔آسیہ کی چار کتابوں میں سے دو مکمل عربی زبان میں ہیں۔ ایک عربی کتاب میں انھوں نے چالیس موضوعات کے ذریعے عربی سیکھنے کے درس دیئے ہیں۔ جبکہ دوسری کتاب میں 80موضوعات پر تحریریں ہیں۔ تیسری کتاب عربی اور انگریزی زبان میں ہے ، یہ ایک کہانی ہے جسے عربی میں لکھا اور ساتھ ہی اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ چوتھی کتاب میں سبق آموز عربی کہانیاں اور ان کا اردوزبان میں ترجمہ ہے۔ان میں سے ایک کتاب عمان سے شائع ہوئی جس کی تقریب رونمائی بھی وہاں سے ہی ہوئی۔آسیہ نے بتایا کہ وہ اپنے والد محترم کے ساتھ صرف اور صرف عربی زبان میں بات کرتی ہیں۔ ان کے والد ڈاکٹرعارف صدیق انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹرعارف صدیق نے بتایاکہ ان کے ہاں گیارہ سال کے انتظار کے بعد آسیہ پیدا ہوئی۔ میں نے آسیہ کی ایک سال کی عمر میں ہی اس سے عربی میں بات چیت شروع کر دی۔ میں نے ڈیڑھ، دو سال کی عمرسے بیٹی پر محنت شروع کی، تین سال کی عمر میں یہ عربی سیکھ گئی۔ قطر میں اسے پاکستانی کمیونٹی تک ہی محدود رکھتا تھا، میں نے جان بوجھ کر اسے عربوں سے نہیں ملایا ورنہ اس کی عربی زبان خراب ہو جاتی۔
جب آسیہ ساڑھے تین برس کی تھی ہم پاکستان واپس آگئے“۔آسیہ کی عمر ساڑھے تین برس تھی کہ جب اپنے والدین کے ساتھ واپس پاکستان آئیں۔ آسیہ ساڑھے سات بر س کی تھیں جب ان کے والد انھیں ہر روز ایک موضوع دیتے اور اس پر عربی زبان میں دس جملے لکھنے کو کہتے۔ یہ کام حرم کعبہ میں شروع ہوا جب آسیہ اپنے والد کے ساتھ بالائی منزل پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ والد نے خانہ کعبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیٹی سے کہا کہ اس کے بارے میں دس جملے لکھو۔آسیہ کو انگریزی زبان پر بھی مکمل عبور حاصل ہے۔آسیہ اس وقت جماعت دہم کی طالبہ ہیں۔آسیہ سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے کی طرف بھی کشش محسوس کرتی ہیں۔