لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کے بعد، حکومت نے 8 اگست سے سیاحت پر پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ملک میں سیاحت کی صنعت ابھی مکمل طور پر نہیں کھل پائی ہے لیکن گذشتہ روز پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے 2021 میں نامور خاتون صحافی منزہ انوار بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ورلڈ ٹورازم فورم منعقد کروانے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے۔2021 کا ورلڈ ٹورازم فورم دارالحکومت، اسلام آباد میں منعقد کرنے کا منصوبہ ہے۔ ترکی سمیت ڈی -8 (ترقی پذیر آٹھ) ممالک کے سیاحت کے وزیروں کی اس فورم میں شرکت متوقع ہے۔
اور امید کی جا رہی ہے کہ یہ فورم پاکستان میں سیاحت کی صنعت کو عالمی سطح پر ابھرنے کا موقع فراہم کرے گا۔یاد رہے گذشتہ مہینے ورلڈ ٹورازم فورم کے میزبان کے طور پر پاکستان کا انتخاب کیا گیا تھا۔ یہ فورم 2020 میں منعقد ہونا تھا لیکن کورونا وائرس کی وبا کے باعث اسے 2021 تک ملتوی کر دیا گیا تھا۔یہ عالمی سیاحتی فورم کیا ہے، اس میں کن موضوع پر بات کی جائے گی اور بہتر سیاحتی پالیسیاں مرتب کرنے اور انفراسٹرکچر و دیگر سہولیات کی فراہمی سے قبل عالمی سیاحتی فورم منعقد کرنے پر زور کیوں دیا جا رہا ہے اور اس فورم سے پاکستان میں سیاحت کی صنعت کو کیا فائدہ ہو گا۔ ان سب سوالات کے جواب کے لیے ہم نے وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے سمندر پار پاکستانیز اور سیاحت سید ذوالفقار بخاری (عرف زلفی بخاری) سے بات کی۔زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ ورلڈ ٹورازم فورم والے روس، قطر، ترکی سمیت کئی یورپی ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے روانڈا میں کام کیا ہے۔ اور جس ملک میں بھی یہ گئے ہیں وہاں ناصرف بیرونی ممالک سے بہت بھاری سرمایہ کاری
آئی ہے بلکہ بڑے نشریاتی اداروں نے بھی دلچسپی لینی شروع کی جس سے ان ممالک میں سیاحت کو مزید فروغ ملا۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ورلڈ ٹورازم فورم سے پانچ دنوں کے اندر پاکستان میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔ اور اس کے علاوہ اس فورم سے اشتہارات اور پروموشن کی مد میں بی بی سی اور سی این این جیسے بڑے نشریاتی ادراوں میں 400 ملین ڈالر مالیت کے ٹی وی رائٹس بھی ملیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ ٹورازم فورم، کانفرنس کے انعقاد کے چھ مہینوں بعد تک کنسلٹینسی بھی فراہم کریں گے تاکہ سیاحت سے وابستہ جتنے بڑے برینڈر پاکستان آ رہے ہیں ان سے بہتر طرح سے انویسمنٹ کروائی جا سکے۔پاکستان میں سیاحت کی صنعت سے وابستہ بہت سے افراد اس اقدام پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسے وقت میں اس فورم کی میزبانی صرف اور صرف پیسے کا ضیاح ہے اور اس فورم کا انعقاد کرنے سے قبل پاکستان کو اپنی بہتر ٹورازم پالیسی مرتب کرنی چاہیے نیز یہ کہ سیاحتی مقامات کے انفراسٹرکچر، وہاں تک پہنچے کے لیے سڑکوں، دور دراز علاقوں میں انٹرنیٹ اور طبی سہولیات کی فراہمی بہتر بنانے کے لیے اقدامات لینے چاہییں، تاکہ سیاحت کی صنعت کو واپس پٹڑی پر لایا جا سکے۔اس بارے میں زلفی بخاری کہتے ہیں کہ ’پالیسیاں بنانے سے انویسمنٹ نہیں آتی نا سڑکیں بن جاتی ہیں اور نہ پالیساں آپ کو انٹرنیٹ فراہم کرتی ہیں اور جو لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں انھیں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کیا کہہ
رہے ہیں۔‘’میں سمجھتا ہوں کہ ان کے سوچنے کا انداز انتہائی بیوقوفانہ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہسپتال، انفراسٹکچر، ٹورازم، پالیسیاں اور انویسمنٹ یہ سب چیزیں الگ الگ ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ پالیسیوں اور انویسمنٹ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہماری دس سال کی ٹورازم پالیسی بنی ہوئی ہے جس کے ساتھ ہم نے پانچ سال کا ایکشن پلان بھی بنایا ہوا ہے۔’لیکن اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ پہلے پورے پاکستان میں سڑکیں اور ہسپتال بن جائیں اور انٹرنیٹ آ جائے تو شاہد ہم 10 سال بیٹھے رہیں گے۔ تو کیا ہم ان 10 سالوں کے لیے انویسمنٹ نہ لے کر آئیں؟‘زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں سمٹ کروانے کا انفراسٹرکچر اور دیگر سہولیات کی فراہمی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ دونوں چیزوں الگ ہیں۔زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ انویسمنٹ آتی ہے، لوگ ان علاقوں کا دورہ کرتے ہیں تو ایک ایکو سسٹم بنتا ہے جس میں سکول، ہسپتال اور سڑکیں وغیرہ شامل ہیں۔ انویسمنٹ نہیں آئے گی تو ایکو سسٹم ہی نہیں بن پائے گا کیونکہ یہ دنوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ انفراسٹرکچر، سڑکوں، ہسپتالوں اور انٹرنیٹ کی فراہمی صوبوں کا کام ہے اور انھیں اس پر توجہ دینی چاہیے۔ لیکن نیشنل ٹورازم بورڈ کے طور پر ہمارا کام سیاحت کو فروغ دینا اور ملک میں انویسمنٹ لے کر آنا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایک فائیو سٹار ہوٹل بناتا ہے تو وہ اس کے آس پاس کا علاقہ بھی ٹھیک کرتا ہے کیونکہ اس سے اسی کے ہوٹل کو فائدہ پہنچتا ہے۔(بشکریہ : بی بی سی )