اسلام آباد (ویب ڈیسک)اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری رپورٹ پر حکم امتناع ختم کرتے ہوئے حکومت کو شوگر ملز کیخلاف کارروائی کی اجازت دے دی۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے شوگرملز ایسوسی ایشن پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کی چینی رپورٹ پر کاروائی روکنے کی درخواست مسترد کر دی ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے چینی انکوائری کمیشن کیس پر حکم جاری کردیا،دو صفحات پر مشتمل فیصلہ میں جاری کہا گیا ہے کہ درخواست گزار سمیت کوئی بھی فریق ہو اس کا فیئر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہونا چاہیے، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ نیب کو کیس بھیجا گیا وہ درست ہے، وفاقی وزرا فیصلے پر بیان بازی نہیں کرینگے۔
اس سے قبل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے شوگر ا نکوائری کمیشن کی رپورٹ کے خلاف دائر درخواست پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ رپورٹ میں جو نتیجہ اخذ کیا گیا اس کو متعلقہ فورم پر ثابت ہونا ہے، یہ رپورٹ صرف فیکٹ فائنڈنگ ہے۔ اصل مسئلہ تو عوامی عہدہ رکھنے والوں کو ہونا چاہیئے۔رپورٹ میں موجودہ حکومت کے ذمہ داران کو بھی مورد الزام ٹھرایا گیا۔ کیا ذمہ دار ٹھہرائے گئے کسی حکومتی رکن نے چینی کمیشن کی رپورٹ کو چیلنج کیا؟وفاقی وزیر اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے حوالہ سے بھی کمیشن نے لکھا کیا وہ بھی تعصب ہے؟پبلک آفس ہولڈرز کے خلاف سنجیدہ نوعیت کے الزامات لگائے گئے ۔ زیادہ تشویش تو اس پبلک آفس ہولڈر کو ہونی چاہیئے جو آج اس حکومت میں ہے۔ نیب کے پاس تو کیس ان کے خلاف بھی جائے گا۔ ہم کیسے کہہ دیں کہ رپورٹ تعصب کی بنیاد پر تیار کی گئی؟ابھی تک پتا نہیں نیب اس پر کاروائی کرتا بھی ہے یا نہیں۔ نیب کو تو ایسی رپورٹس یا شکایت کا پہلے جائزہ لینا ہے۔ موجودہ وفاقی وزیر کے حوالہ سے رپورٹ میں لکھا جانا حکومت کا بھی امتحان ہے۔ شوگر کمیشن کی انکوائری رپورٹ دراصل موجودہ حکومت اور نیب کا امتحان ہے۔ملز مالکان تو فائدہ لینے والے ہیں۔ عدالت نے مسابقتی کمیشن کیس کے فیصلے میںکہا ہے کہ کابینہ اپنا اختیار کسی کو نہیں دے سکتی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے شوگر ا نکوائری کمیشن کی رپورٹ کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ شوگر انکوائری کمیشن کے ارکان قابل افسران اور کسی بھی حکومت کا پریشر نہ لینے والے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کہا گیا کہ آگے چل کر اس رپورٹ کا غلط استعمال ہو گا، بغیر دلیل کہا گیا کہ انکوائری کمیشن تعصب پر مبنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل کے کسی مفروضے پر آج تحقیقات نہیں روکی جاسکتیں۔ان کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیشن کا ٹاسک فیکٹ فائنڈنگ کے بعد اپنی سفارشات دینا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیشن نے دو طرح کی سفارشات دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیشن نے فوری نوعیت کی کاروائی کے علاوہ طویل مدتی اقدامات کی بھی سفارش کی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر کاروائی سے روکنے کے حوالہ سے حکم امتناع ختم کر دیا جائے اور اداروں کو کام کرنے کی اجازت دی جائے اور شوگر ملز مالکان کو جو اسٹے آرڈر دیا گیا ہے اس کو فوری طور پر ختم کر دیا جائے۔ ۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے ارکان پر شوگر ملز کے خلاف متعصب ہونے کا الزام لگایا گیا مگر کوئی ثبوت نہیں دیا گیا ، کہا گیا ایک کمیٹی کے ممبر کی22 گریڈ میں ترقی ہوئی لیکن کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیشن کے کسی رکن پر مفادات یا سیاسی وابستگی کا الزام نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بغیر کسی دلیل کے کہا گیا کہ انکوائری کمیشن تعصب پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ تھی کہ شوگر انکوائری کمیشن میں حکومت نے تحقیقات کے لئے مختلف اداروں کے افسران شامل کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاناما جے آئی ٹی میں مختلف اداروں کے افسران کو شامل کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے پاناما کیس اور جعلی بینگ اکائونٹس کیس میں جے ا ئی ٹی تشکیل دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ انکوائری کمیشن سیاسی مخالفین سے انتقام کے لئے بنایا گیا ، انکوائری تو حکومت کے اپنے مضبوط اتحادیوں اور دوستوں کے خلاف بھی ہو رہی ہے، دوستوں اور اتحادیوں کے خلاف کاروائی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کاروائی کسی تعصب پر مبنی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دوستوں اور اتحادیوں کے خلاف کاروائی کے لئے جرائت اور عزم چاہیئے۔ جبکہ شوگر ملز مالکان کے وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ چینی کیس کاروباری افراد کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا مقدمہ ہے۔ کابینہ کا الگ اور معاون خصوصی کا الگ فیصلہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا شہزاد اکبر کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کروائیں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چینی رپورٹ میںسے سخت الفاظ کو حذف کر دیتے ہیں۔ اس پر ملز مالکان کے وکیل مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ چینی کمیشن انکوائری رپورٹ سے سخت اور غیر ضروری الفاظ کرنا مناسب نہیں، ہماری عدالت سے استدعا ہے کہ چینی پر نیاکمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا کابینہ اپنے اختیارات کسی اور کو دے سکتی ہے؟چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ مسابقتی کمیشن کیس کے فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ کابینہ کسی کو ختیار نہیں دے سکتی۔ اس پر اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کو ایڈوائس دیں گے کہ وہ اس پر نظر ثانی کرے۔