لاہور: نیب نے میرشکیل الرحمان اراضی کیس میں سابق وزیر اعظم نوازشریف کو طلب کرلیا، نوازشریف کے دور حکومت میں میرشکیل الرحمان کو اراضی منتقلی کا الزام ہے،نوازشریف کو 20مارچ کو تحقیقات کیلئے طلب کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نیب نے جنگ گروپ کے مالک میرشکیل الرحمان کے اراضی کیس کی تحقیقات کا دائرہ بڑھا دیا ہے، نیب نے کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں سابق وزیر اعظم نوازشریف کو20مارچ کو طلب کرلیاہے۔ نوازشریف کے دور حکومت میں میرشکیل الرحمان کو اراضی منتقلی کا الزام ہے۔ واضح رہے میر شکیل الرحمن کو زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ 1986ء میں شروع ہوئی جو شریف خاندان کے دور اقتدار میں 2016ء میں رولز میں نرمی کر کے ان کے نام منتقل کی گئی۔
جوہر ٹاون ہاؤسنگ سکیم 1981ء میں شروع کی گئی۔ نیب ترجمان کے مطابق 1986ء میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی ای) نے ہدایت علی اور حاکم علی وغیرہ کے نام 180 کنال 18 مرلے زمین کا استثنیٰ دیا۔ جس کی جنرل پاور آف اٹارنی میر شکیل الرحمن کے نام تھی۔ 14 جولائی 1986ء کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواز شریف نے استثنیٰ کے رولز کو تبدیل کیا اور 55 کنال 5 مرلے زمین کی الاٹمنٹ ہدایت علی اور حاکم علی وغیرہ کے نام کی جس کی جنرل پاور آف اٹارنی میر شکیل الرحمن کے نام تھی، زمین جوہر ٹائون میں واقع تھی۔ گورنمنٹ کی ہائوسنگ سکیموں میں پلاٹس کی الاٹمنٹ قرعہ اندازی کے ذریعے ظاہر کی گئی لیکن قرعہ اندازی کا عمل کیا ہی نہیں گیا۔ میر شکیل الرحمن کے مختلف مقامات پر 3 پلاٹس ہیں جن میں سے ایک پلاٹ 33 کنال کا نہر کے کنارے پر جبکہ دوسرا پلاٹ جس کا رقبہ 124 کنال ہے یہ سوک سنٹر کے قریب واقعہ ہے اور تیسرا پلاٹ سوک سنٹر سے کچھ فاصلے پر جس کا رقبہ 33 کنال ہے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نواز شریف نے میر شکیل الرحمن کو خصوصی رعایت دی اور تین مختلف جگہوں پر واقع پلاٹوں کو استثنیٰ دیا اور ایک ہی جگہ پر 55 کنال 5 مرلے الاٹ کئے جو نہر کے کنارے پر واقع ہیں، الاٹمنٹ کا عمل غیر قانونی اور مروجہ قوانین اور ضابطہ کار کی خلاف ورزی ہے۔
اپنی سمری میں وزیر اعلیٰ نے لکھا کہ یہ خصوصی کیس ہے اور اس کو ایک مثال نہیں بنایا جا سکتا۔ فیز 2 کے اصل منصوبے میں میں ایک 30 فٹ چوڑی سڑک اور 15 فٹ چوڑی گلی بھی ان مستثنیٰ اور الاٹ کئے گئے پلاٹ میں شامل ہے لیکن یہ سڑک اور گلی اب جنگ پیلس کا حصہ ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر قرعہ اندازی کا عمل کیا گیا تو ایک ایک کنال کے 55 پلاٹس کی الاٹمنٹ ان کے الاٹیوں کے نام ہونی چاہیے تھی۔ اس حوالے سے دو افراد نے سول کورٹ میں درخواست دی جبکہ ایک شخص نے محتسب کے پاس رٹ فائل کی۔ سول کورٹ نے ان درخواستوں کو ای ڈی او آر کو بھیجا اور ای ڈی او آر نے دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ اشخاص اور ان کی درخواستیں 11 جولائی 2013ء کو خارج کر دی گئیں۔ ایل ڈی اے نے محتسب کے پاس اپنا جواب جمع کرایا لیکن ایل ڈی اے کی فائل میں محتسب کا کسی قسم کا آرڈر موجود نہیں، 1994ء میں رکن صوبائی اسمبلی آفتاب خان نے پنجاب اسمبلی میں سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ وزیر اعلیٰ نے میر شکیل الرحمن کے حق میں ایل ڈی اے کے ضابطہ کار اور قوانین میں نرمی کی ہے تو اس وقت کے صوبائی وزیر ریونیو پنجاب نے اس کا جواب ہاں میں دیا تھا۔