تل ابیب : خلیجی ملکوں اور اسرائیل کے درمیان براہ راست تعلقات قائم نہیں مگرصہیونی ریاست خلیجی ممالک کے قریب آنے کی کوششیں کرتی رہی ہے۔ اس بحث کے جلو میں اسرائیلی اخبار میں اسرائیلی تجزیہ نگار شعمون مندیزنے کہا افسوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تل ابیب کوچالیس سال قبل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے قیام کا سنہری موقع ہاتھ آیا تھا مگر بدقسمتی سے اسرائیل نے یہ موقع گنوا دیا۔
اسرائیلی تجزیہ نگارکا کہنا ہے کہ لاکھوں مسلمان ہرسال فرئضہ حج ادا کرتے ہیں۔ وہ حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کے مکہ معظمہ کا رخ کرتے ہیں۔ 40 سال قبل اپریل 1981ء کو اسرائیل کو سعودی عرب کے قریب آنے کا بہترین موقع ہاتھ آیا۔ اردن کی سرحد سے متصل جسر النبی گذرگاہ پر ایک اجلاس منعقد ہوا۔
اس میں اسرائیل اور اردن کے ٹیلی کمیونیکیشن کے وزراء نے شرکت کی جب کہ اجلاس کا اہتمام ریڈ کراس کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس اجلاس کا ایجنڈا غرب اردن اور اسرائیلی ریاست کے فلسطینی عازمین حج کو اردن کے راستے مکہ معظمہ تک پہنچانے پرغورکرنا تھا۔ اجلاس میں اردن کی فوج کے جنرل عبدالحلیم المجالی اور اسرائیل کے کرنل توویا ناووت بھی شریک ہوئے۔ اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ میں بھی اس اجلاس میں موجود تھا۔اسرائیلی دانشور کے مطابق چونکہ اسرائیلی مندوب اور ریڈاس کا نمائندہ عربی نہیں سمجھتے تھے۔
اس لیے جسر النبی پرہونے والے اجلاس میں انگریزی زبان میں بات چیت ہوتی رہی۔ اجلاس کے دوران ریڈا کراس کا مندوب زیادہ تر خاموش رہا، جہاں کہیں ضرورت پڑتی وہ بات کرلیتا۔ بات چیت کا آغاز اردنی جنرل عبدالحلیم المجالی نے کیا۔ اس سال اردن کو کافی مشکلات درپیش تھیں۔ اس موقع پراسرائیلی مندوب نے انہیں مشکلات سے نکلنے اور بحران سے نکلنے میں مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے مزید لکھا کہ اس وقت سے اب تک غرب اردن سے جسرالنبی کے راستے اردن سے ہوئے فلسطینی عازمین حج سعودی کا سفر کرتے ہیں۔ حیران کن امر یہ تھا کہ اس سے قبل جسرالنبی سے اردن تک فلسطینی عازمین کی ٹرانسپورٹ کی سہولت کے لیے 50 بسیں ایران کی طرف سے فراہم کی گئی تھیں مگرستمبر 1980ء کو عراق اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ نے ایرانی بس سروس میں رکاوٹ پیدا کی۔ اس موقع پرجنرل المجالی نے تجویز پیش کی کہ فلسطینی عازمین حج کو اسرائیل سے بسوں پر براہ راست سعودی عرب لے جایا جائے مگر اس موقع پر اسرائیلی مندوب نے اس تجویز کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ شاید وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اس تجویز پرعمل درآمد مشکل ہے مگرایسا ہرگز نہیں تھا۔شمعون مندیز کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں یہ صرف ایک سیاسی معاملہ تھا اور اسے آسانی کے ساتھ حل کیا جاسکتا تھا۔ اس کے لیے صرف آرمی چیف کی سطح پربات چیت کی ضرورت تھی۔ چونکہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان براہ راست تعلقات نہیں تھے اس لیے دونوں ملکوں کو اس حوالے سے کسی تیسرے فریق کو شامل کرنا پڑتا۔